معلّم انسانیتؐ اور آپ کا طریقہ تدریس

کتاب موجود ہو اور طلبہ بھی موجود ہو اور معّلم موجود نہ ہوتو ممکن نہیں ہےکہ محض کتاب سے طلبہ علم حاصل کر سکیں ۔اس لیے کتاب اور معلّم لازم و ملزوم ہیں ۔ بالکل اسی طرح اللہ تعالٰی  نے انسانیت کی ہدایت کے لیے کتاب یعنی قرآن کے ساتھ  معلّم یعنی  اپنے نبیؐ کو دنیا میں بھیجا خود حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ”  علم حاصل کرنا ہر مسلمان عورت پر فرض ہے ” اور یہ بھی فرمایا کہ” مجھے معلّم بنا کر بھیجا گیا ہے ۔”

آپﷺ نے سب سے پہلی درسگاہ  دار ارقم کو بنایا  تاکہ جو لوگ اسلام کوقبول کرنے والے اسلام کے دامن رحمت میں آئیں ان کی تعلیم تربیت ہوسکے یہ قافلہ جب ہجرت کرکے مدینے پہنچا تو آپ ؐان کی تعلیم تربیت سے اس وقت بھی غافل نہ ہوئے بلکہ آپ ؐ نے وہاں پہنچ کر مسجد نبوی کی تعمیر کے بعد باہر ایک چبوترہ  تعلیم و تربیت کےلیے تعمیر فرمایا یہاں وہ طلبہ  اپنے علم کی پیاس بجھاتے جواپنا سارا وقت   حصول علم  کےلیے دیتے وہ یہیں رہتے تھے ۔

معلّم انسانیت خود ان کی تعلیم و تربیت فرماتے  ان طالب علموں میں ہر طرح کے لوگ ہوتے کوئی ذیادہ ذہین کوئی اوسط ، کوئی غریب اور مفلس کوئ  مالدار حتیٰ کہ کئی تو دوسرے ممالک کے طلبہ بھی تھے ۔ان  سب کی ذہنی سطح اور حالات کو مدّ نظر رکھ رکر آنحضور ؐ ان کو تعلیم کے زیور سے آراستہ فرماتے۔آپؐ کے طریقہ تعلیم کے چند  نمایا ں حصّے   پیش کئے جارہے ہیں تاکہ  ان کو اپنا کر ہم اپنے آنے والی نسلوں  کی بہترین تعلیم و تربیت کر سکیں۔

ذاتی تعلق  و شفقت

استاد کا شاگرد کے ساتھ جب تک ذاتی تعلق شفقت کی بنیاد پر نہ ہوتو  تدیسی عمل  برگ وبار نہیں لاسکتا ۔ ذاتی تعلق و شفقت ہی وہ   چیز ہے جو کہ دل و ذہن کو استاد سے اکتساب علم کے لیے شاگرد کو تیار کرتاہے ۔یہ خوبی حضورؐ کی ذا ت میں پائی جاتی تھی جو ایک بار آپ ؐ سے ملاقات کرتا اس کے ساتھ حضورؐ مسکراتے ہوئے ملتے ، جب یہ ملاقات ختم ہوئی تو اگلی ملاقات کے لیے شوق پید ا ہوتا ۔ ہر فرد کو ایسا محسوس ہوتاکہ آنحضورؐ اس سے دوسرے فرد کے مقابلے میں زیادہ شفقت فرماتے ہیں۔

ذوق و شوق

انسان اسی کام کوتوجہ  اور لگن کے ساتھ کرتاہے جس  کا م  کا اس کوذوق و  شوق ہو گویا  یہ چیز کام کے کرنے کا محرک بن جاتی ہے اب یہ ذوق و شوق پیدا کرنا ایک ماہر استاد کا کام ہے اس کے بغیر استاد سے اکتساب علم  کی مثال ایسی ہی ہوگی جیسے کہ بارش کسی   پتھر پر برستی ہے ۔معّلم انسانیت ؐ کا کمال یہ تھا  کہ آپ ؐ پہلے صحابہ اکرام  رضی اللہ عنہ کے اندر ذوشوق پید ا فرماتے  ۔ بار بارجنت کے تذکرے اس کے اندر نعمتوں  کے حاصل ہونے کی باتیں  یہ بالکل ایسی طرح جس طرح ایک ماہر کسان  بیج بکھرنے سے پہلے زمین کو تیار کرتاہے ۔

قول و فعل میں یکسانیت

ایک بہترین اور اعلٰی کردار کے انسان میں یہ خوبی ہونی چاہئیے کہ وہ جو کہے اس پر عمل بھی کرے یہ اصول  درس و تدریس میں   مسلّمہ ہے ۔ایک استاد جو کچھ  تدریس کے دوران اپنے شاگردوں کوبتارہاہے اس پر وہ خود عامل ہو ۔حضورؐ نے جو باتیں اپنے شاگردوں کو بتائی  اس پر عمل کرکے سب سے زیادہ دیکھایا  اگر آپ ؐ نے امانت اور دیانت یا ایفائے عہد کے بارے میں تلقین کی تو آپ ؐ کی حیات مبارکہ میں اس  پر عمل کی بہترین مثالیں ملتی ہیں۔

فصاحت اور بلاغت

ایک ایسا استاد  جو کہ شاگردوں کی زبان سے ناواقف ہو یا اس پر اس کی گرفت کمزور ہوتو  یہ کمزوری اس کے اس کام میں سدّ راہ بنے گی ۔استاد تدریسی عمل کے دوران  اچھے الفاظ اور جملے استعمال کرے  اور دوران گفتکو اس بات  کا جائزہ لے کہ اس کی بات   طلبہ کو سمجھ آرہی ہے یا نہیں۔حضورؐ کا یہ وصف تھا کا آپؐ فصیح  و بلیغ گفتگو فرماتے کم الفاظ ہوتے ، چھوٹے چھوٹے  جامع جملے ارشاد فرماتے۔ اگر کوئی چاہتا کہ الفاظ گن لے تو یہ کام آسانی سے ہوسکتا۔بہت زیادہ اہم باتیں  ہوتی تو آپ ؐ اس کو دوہراتے ۔ تاکہ سامع اس کو سمجھ کر آسانی سے یاد کرلے ۔آواز  نہ بہت پست ہوتی او ر نہ آپ ؐ چیخ کر بات کرتے ۔خطبے مختصر اور جامع ہوتے ۔

سوال و جواب  کا طریقہ

حضورؐ کا طریقہ تدریس بڑا دلچسب   ہوتا آپؐ حاضرین کی توجہ کو  اپنی طرف مبذول رکھنے کے لیے  دوطرفہ گفتگو بھی فرماتے   حاضرین سے سوالا وجواب کا سلسلہ رکھتے ۔ بعض اوقات آپؐ بات کو اچھی طرح سمجھانے کے لیے خود  ہی سوال کرتے  اور پھر اس کاجواب بھی ارشاد فرماتے ۔جیسے کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرمؐ نے فرمایا کہ تم جانتے ہو کہ مفلس کون ہے ؟ حاضرین مجلس نے عرض کیا : ہمارےنزدیک مفلس وہ ہوتاہے جس کے پاس نہ نقدی ہو اور نہ کوئی سامان ہی ہو۔

اس پر رسولؐ نے فرمایا کہ میری امّت کا مفلس وہ ہوگا جو دنیا میں نمازی تھا،روزہ  دار تھا اور زکواۃ دیا کرتاتھا ۔ان عبادا  ت کے اجر وثواب کے ساتھ میدان حشر میں آئے گا  ۔ اس کے ساتھ اس کا یہ حال ہوگا کہ دنیا میں : کسی کو گالی دی تھی ،کسی پر بدکاری کا الزام لگایا تھا، کسی کا مال نہ حق کھایا تھا،کسی کی خون ریزی کی تھی اور کسی کو نہ حق مارا تھا۔ان تمام لوگوں میں جن جن پر اس نے ظلم و زیادتی کی تھی اس کی نیکیا ں بانٹ  دی جائیں گی ۔ پھر اگر مظلوموں کے حق ادا  ہونے سے پہلے  ہی اس کی نیکیا ں ختم ہوگئیں تو ان کے گناہ اس کے حساب میں ڈال دئیے جائیں گے اور پھر اسے جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔”

امثال اور قصوں کے رزیعے

تعلیم و تر بیت کے لیے ضروری ہے کہ استاد   امثال اور قصوں کے زریعے اپنے شاگردوں تک معلومات ذہن نشین کرائے تاکہ وہ اس کے اخلاق کا حصّہ بن سکے ۔ہمیں سیرت کے مطالعے سے بات  بارہا یہ بات ملتی ہے کہ  آپؐ سچّے قصے بیان فرماتے اور بات کو سمجھانے کے لیے مختلف قسم کی د لچسب مثالیں دیتے تاکہ بات  اچھی طرح سمجھ آجائے اور زیادہ دیر تک یاد رہے ۔مثال کے طور پر آ پؐنے فرمایا”اچھے ہم نشین اور بُرے ہم نشین کی مثال ایسی ہے، جیسے مُشک بیچنے والا اور بھٹیارہ۔ پس مشک بیچنے والا یا تو تمہیں مشک پیش کرے گا یا تم خود اس سے مُشک خرید لوگے، یا (کم ازکم) اس کے پاس سے خوش بو آتی رہے گی۔ اور بھٹیارہ یا تو تمہارے کپڑے جلادے گا۔ یا (کم از کم) اس سے بدبو تمہیں پہنچے گی۔“ (متفق علیہ)

آج کے ماہرین تعلیم نے طالب علم کے ذہن سازی اور تعلیم و تربیت کے لیے کچھ  طریقے اپنائے ہیں ان میں جو بھی بہترین طریقے ہیں اور جن سے آنے والی نسل تیار ہورہی ہے ۔ ان کےاندر خوبیاں تو ان ہی بنیادی طریقوں کی وجہ سے ہے جو کہ آنحضورؐ نے اپنی حیات مبارکہ میں  انسانیت کی تعلیم وتربیت کے دوران کرکے دکھائے ۔ مگر آج  ان طریقوں کو جزوی طور پر اپنایا جاتاہے ۔ جس کی وجہ سے ثمرات پوری طرح ظاہر نہیں ہوتے اور آدھا تیتر اور آدھا بٹیر والی کیفیت سے قوم دورچار ہے ۔ موجودہ تعلیم نظام  کی خرابی کی سب سے بڑی وجہ  ہمارا تعلیم نظام خدا مرکز نہیں رہاہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ نظام تعلیم کو  خدا مرکز  بنایا جائے۔