بے حجابی کی لعنت 

سارہ اعلی تعلیم یافتہ اور کچھ حد تک دیندار گھرانے کی ایک خوبصورت لڑکی تھی. انگلش لٹریچر میں ماسٹرز کرنے کے بعد وہ پیا دیس سدھارنے والی تھی. آج گھر میں ڈھولکی تھی جسکے لیے ڈانس اور گانوں کی پریکٹس سب کزنز ایک ہفتے سے کر رہے تھے. حالانکہ وہ یونیورسٹی میں حجاب لیتی تھی اور نماز پڑھنے والی لڑکی تھی. ماحول سے یہ چیزیں وراثت میں  تو مل گئی تھیں مگر انکی اہمیت اسکے اندر جذب نہ ہو سکی تھی. اس کی سسرال سے آنے والی شاندار بَری  دیکھ کر سب اسکی خوش قسمتی پر رشک کر رہے تھے.

افراسیاب اعلی تعلیم یافتہ براڈ مائنڈ ڈ انسان تھے . دو سال کی منگنی کے دوران سارہ سے شدید محبت کرنے لگے تھے . انکو سارہ کی خوشی ہر حال میں عزیز تھی.  چھ بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹے اور لاڈلے تھے . سارہ کی نند ہی ساس کی جگہ تھیں . شادی کے بعد خاندان کے ڈنرز اور بھانجوں بھتیجوں کی شادیوں کا سلسلہ شروع ہو گیا.

سارہ جب بَری کے کپڑے پہن کر نک سک سے تیار ہو کر  محفل میں آتی تو گویا بجلیاں سی کوند جاتیں. چاندی رنگت اور سڈول بدن والی سارہ کے آگے سب ماند پڑ جاتے. افراسیاب کا سر فخر سے بلند ہو جاتا،

اور کیوں نہ ہوتا سب بھائیوں بھانجوں کی بیویوں سے خوبصورت تھی اسکی سارہ…… وہ بھی اپنی قسمت پر نازاں اتراتی رہتی. اسکا حجاب اتر چکا تھا ہاں دن کی تین چار نمازیں دیر سویر کر کے پڑھ لیا کرتی.

اس کے ہاتھ کے کھانوں میں لذت تھی. بقرعید میں جب بار بی کیو کی دعوت کرتی  بہنوئی ، جیٹھوں اور بھانجوں سے خوب داد وصول کرتی. اسکی نند اور جٹھانیاں اتنی پذیرائی دیکھ کر اس سے حسد کرنے لگی تھیں. پانچ سال میں قدرت نے اسے دو بچوں سے نواز دیا تھا.

اتنی توجہ پا کر وہ خودپسند اور مغرور ہو گئ تھی. بس یہی خطا اسکے رب کو ناراض کر گئ. رب العزت کی نوازشوں کو نعمت سمجھنے کے بجائے اپنی خوبیوں کی مرہون منت سمجھنے لگی. اسکے نفس نے اسکو بہکا دیا. شکر تو کیا ادا کرتی کفر کر بیٹھی!!!

اسکی قسمت نے پلٹا کھایا اور نجانے کب اسکے حسن اور خوبیوں سے افراسیاب کا غیر شادی شدہ بھانجا عمر مرعوب ہو گیا. بس پھر کیا تھا اسکی خوشیوں کو گہن لگتا چلا گیا.

شوہر کے آفس جانے کے بعد عمر حیلے بہانے سے روز آنے لگا. کبھی نند کے ہاتھ کا حلیم لے کر، کبھی بچوں کے لیے تحائف لے کر. شروع میں تو وہ نہ سمجھی مگر جب افراسیاب کو پتہ چلا تو انکا ماتھا ٹھنکا اور سارہ کو عمر سے دور رہنے کی تاکید کی. مگر مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی….. کے مصداق عمر  کا نفسیاتی پن نند کی نظروں سے چھپا نہ رہ سکا ماں جو تھیں……وہ بھی بہت پریشان ہو گئیں.

نند بھاوج کی دشمنی تو ہمیشہ سے تاریخ کے اوراق کا حصہ رہی ہے. اور ماں کی ممتا کی لازوال داستانیں بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں. اسلیے نند نے  سارہ کو قصور وار ٹھہرا دیا اور بیٹے کو بچا لیا. سارے خاندان میں سارہ کے کردار پر انگلیاں اٹھنے لگیں، جٹھانیوں اور بہوؤں نے جلن میں خوب اپنے دل کی بھڑاس نکالی.

ہواؤں میں اڑنے والی سارہ بہت اونچائ سے زمین پر آگری کہ اسکا وجود کانچ کی گڑیا کی طرح ریزہ ریزہ ہو کر بکھر گیا اسکا سسرال کا مان، بھروسہ، امنگیں، خوشیاں، قسمت سب اس سے روٹھ گئی.

اسکے سجنے سنورنے کی خواہش اسکا جرم ٹھہرا!! اور محفلِ جان ہونا اسکی بے حیائی!!!

بے پردگی تو آجکل سب ہی کرتے ہیں، مگر صرف اسکا ہی جرم کیوں ٹھہرا؟ وہ اکثر سوچتی! اسکا جواب بہت سالوں بعد اسے آگہی کی منزل پانے کے بعد ملا…….

افراسیاب جانتا تھا سارہ بےقصور ہے وہ اکیلا اسکا دفاع کرنے  میں ناکام ہو گیا خاندان والوں کی زبانیں وہ بند نہ کرا سکا. آہستہ آہستہ سارہ کی ہر وقت منہ بسورتی شکل، خاندان والوں کی چبھتی نظروں، سوشل بائیکاٹ نے افراسیاب کو سارہ سے بدظن کر ہی دیا. سارہ کی تو گویا دنیا ہی اندھیر ہو گئ. اسکی محبت اس سے روٹھ گئی تھی. سکون دِل کی خاطر اس نے پہلے حجاب  پھر پردہ

کرنا شروع کر دیا اور نمازیں بھی ٹھیک سے پڑھنی شروع کر دیں تھیں، وہ گھنٹوں مصلّے پر سجدے میں گری اپنے ناکردہ گناہوں پر تڑپ کر روتی اور اپنے رب سے معافی مانگتی رہتی.

مگر زندگی ابھی اور امتحان لینے والی تھی. نند نے فوراً بیٹے کی شادی کردی. اپنی انٹر پاس بہو کو ماسٹرز اور بڑھ چڑھ کر خوبیوں کا مالک بتایا افراسیاب کے سامنے بہو کی تعریفوں کے زمین آسمان کے قلابے ملاتیں. سارہ سے گن گن کر بدلے لیتیں. اب افراسیاب کا دل اپنی بہن کے گھر میں لگنے لگاوہاں کی رونقیں اور قہقہے دیکھ کر اسے سارہ کا انتخاب ہی غلط لگنے لگا. سارہ ہر وقت غمگین رہنے لگی تھی اور مرد کی بیوفائی تو صدا کی مشہور ہے. جیسے ہی سارہ نے افراسیاب کے نند کے گھر وقت گزارنے پر اعتراض کیا تو نند نے ایک طوفان کھڑا کر دیا کہ میرے بیٹے کی طرح اب تم پر بھی الزام لگا رہی ہے اور شک کر رہی ہے، نند نے خوب دشمنی نبھائ افراسیاب اتنا بد دل ہوا کہ انتقاماً رات کو دیر سے گھر آنے لگا اور غیر عورتوں سے دوستیاں پال لیں.

اب سارہ کے چار بچے تھے. وہ بچوں کی خاطر ظلم سہتی رہی، پریشانیوں نے اسکو جلد ہی بوڑھا اور بیمار کر دیا. بالآخر اس کے رب کی رحمت جوش میں آئ، اور ابرِ کرم برس پڑا، اسکے ٹوٹے ہوئے دل کو رب کریم نے اپنی محبت سے بھر دیا. وہ جماعت کی کارکن بن گئ اور اللہ کی راہ میں اٹھ کھڑی ہوئی. رب جلیل نے اسکے گناہ دھونے کے بعد اور دنیا اور نفس کے بت توڑنے کے بعد اسکو اپنے چنیدہ بندوں میں شامل کر لیا.

اسکو وہ غنا عطا کیا جو کم ہی عطا ہوتا ہے. وہ شوہر سے بے نیاز ہو گئ اور راہِ خدا کی مسافر بن  گئ. پھر رحمت ِربی جوش میں آئ اور عنایات کی بارش ہونے لگی دنیاوی آسائشوں کے انبار لگ گیے اسکا شوہر بھی راہِ راست پر آنے لگا ہر کھوئ ہوئ چیز دوبارہ ملنے لگی. مگر اب اسکو ہوش کہاں تھا!

وہ انفس و کائنات کے راز جان چکی تھی. اسکی ہر فکر، آخرت کی فکر بن گئ تھی. ایسی نگاہ بینا اور ہدایت کے جواہر سے اسکی جھولی بھر دی تھی، کہ جسکے بعد دنیا کی بڑی سے بڑی کامیابی پر وہ نہ اتراتی نہ غرور کرتی تھی بلکہ سجدے میں گر کر رب العزت کے احسانات پر رونے لگتی تھی اور سجدہءشکر بجا لاتی تھی.

اسکی چاروں اولادوں کو رب کریم نے ہدایت کے موتی کے ساتھ ساتھ بہترین دنیاوی کامیابیوں سے بھی ہمکنار کیا، اور جلنے والے رشتہ دار حیران تھے کہ ہم نے تو اسکو زمین میں گاڑ دیا تھا یہ اور اسکی اولاد کسطرح ہواؤں کی مسافر بن گئ. انہیں کیا پتہ جب سے اس نے دنیا کی پروا کرنا چھوڑی تھی دنیا ذلیل ہو کر اسکے قدموں میں آگری تھی.

12 تبصرے

Comments are closed.