چنے ہوئے لوگ

حسن یوسف پہ کٹی مصر میں انگشت زناں

سر کٹاتے ہیں تیرے نام پہ مردان عرب

مورخہ 29 جولائی 2020ء کو پشاور کی ایک عدالت میں پیشی کے موقع پر محمد خالد نامی ایک نوجوان نے ایک قادیانی کو جج کے سامنے ہی گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ کیا قادیانی ہونا اس کا ایسا جرم تھا کہ جس کے لیے اس سے جینے کا حق چھین لیا گیا۔ کیا یہ بہتر نہ ہوتا کہ اس کی ہدایت کی کوشش کی جاتی! آپ میں سے بہت سے اس بات پر اتفاق کریں گے؛ لیکن ذرا رکیں! کسی بھی قسم کی بیان بازی سے پہلے حقائق کو جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔

ملزم نے دعویٰ نبوت کیا تھا اور اس پہ اس کے بیانات بھی تھے قتل کی وجہ قادیانی ہونا نہیں بلکہ دعویٰ نبوت کرنا اور رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب کرناہے۔ مقتول کا نام طاہر قادیانی جس نے نبوت کا جھوٹا دعویٰ کیا تھا اور 2018ء میں تھانہ سربند میں اس کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا تھا۔۔

دو سال سے مقدمہ کی پیروی ہوتی رہی لیکن پیشی پر پیشی ہونے کی وجہ سے کیس آگے نہ بڑھ سکا ، این جی او از نے اس ملزم کے حق میں مظاہرے بھی کئے اور اسکی طرف سے فریق بھی بنیں ، آج دو سال میں 13 ویں پیشی تھی جس میں ایک نوجوان غازی خالد پٹھان نے اس کے سر میں گولی مار کر قتل کر دیا۔

اب ذرا تاریخ کے دھارے میں تھوڑا پیچھے کی جانب تیرتے ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی کبھی کسی ناعاقبت اندیش نے ناموس رسالت پر طعنہ زنی کی ہے محبان مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر کے سربلندی ملت میں اپنا حصہ ڈالا ہے۔ محبت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ایسا خزینہ ہے جس کی نہ تو قیمت کا تعین ممکن ہے اور نا ہی تمام کائنات میں مثل ہی ڈھونڈنا ممکن ہے۔ ایسا ہی ایک محبت کرنے والے کو دنیا غازی ممتاز قادری کے نام سے یاد رکھے گی۔ اس بحث سے قطع نظر کہ آپ اسے قاتل مانتے ہوں یا محب رسول صلی اللہ علیہ وسلم آپ اس کے اطمینان، اس کے جنازے اور اس کے حق میں محبان مصطفی اللہ علیہ وسلم کے نذرانہ ہائے عقیدت کو نظر انداز نہیں کر سکتے۔ ممتاز قادری قانون کی نگاہ میں بھلے مجرم ہو لیکن سماج کے ایک طبقے کی نگاہ میں بہرحال وہ کوئی عام قاتل نہیں بلکہ ہیرو ہے اور اس کے چاہنے والوں میں جرم اور قانون سے بخوبی واقف کئی وکلا اور سابق جج بھی مل جائیں گے۔

غازی علم الدین شہید رحمہ اللہ کے نام سے کون واقف نہیں! ، رحمت ِعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی اِس پیاری امت میں ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ’’محبت‘‘ کرنے والے ،اور’’ ناموس ِرسالت ‘‘ کے تحفظ کے لیے قربان ہونیوالے، روشن ستاروں کی طرح چمکتے دمکتے محبان ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم، ہر دور میں ہی دنیا کے ماتھے کا ’’جھومر ‘‘رہے ہیں اور امت ِمسلمہ کے یہ وہ عظیم ’’مرد ِمجاہد‘‘ ہوتے ہیں کہ جو ہمیشہ کے لیے اَمر ہوتے ہوئے ،حقیقی معنوں میں ،رب ِقدوس کی عطا کردہ ’’زندگی‘‘با مقصد بنا جاتے ہیں۔ غازی علم دین شہید رحمہ اللہ بھی انہی ستاروں میں سے ایک ’’روشن ستارہ‘‘ ہیں کہ جنہوں نے گستاخِ رسول ہندو راجپال کوجہنم واصل کرتے ہوئے جامِ شہادت نوش فرمایا۔

اس وقت بھی ماہرین قانون کا یہ خیال تھا کہ اگرغازی علم دین اپنے جرم سے انکار کر دیں تو مقدمہ کافی حد تک کمزور اور قابل بریت ہو سکتا ہے لیکن علم دین شہید نے کسی ایسی تجویز پر عمل کرنے سے یکسر انکار کر دیا کہا جاتا ہے اس سلسلہ میں نمائندہ وفد نے علامہ اقبال رحمہ اللہ سے رابطہ کیا اور درخواست کی کہ علم دین شہید کو اپنے اقبالِ جرم سے انحراف کی ترغیب دیں لیکن علامہ اقبال رحمہ اللہ نے روتے ہوئے فرمایاکہ’’ میرے نزدیک اگر کوئی شخص یہ کہے کہ اس نے میرے رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی میلے لباس میں دیکھا ہے تو وہ بھی قابل گردن زدنی ہے ‘‘اور پھر وہ تاریخی جملہ کہا جو آج بھی محبان رسول اللہ علیہ وسلم کے کانوں میں گونجتا نظر آتا ہے کہ ’’ اَسی گلاں ای کردے رہ گئے تے بازی ترکھان دا پتر لے گیا‘‘۔

اس 90 سال کی تاریخ میں شاتمان رسالت کے لیے کھلی تنبیہ ہے کہ صحن رسالت میں پتھر مارنے سے باز آجاؤ! کہیں ایسا نہ ہو کہ مسلمان تم پر چڑھ دوڑیں اور پھر تاریخ کے اوراق میں تمہارا ذکر بھی باقی نہ رہے گا۔ یاد رکھو! نہ غیرت مسلم سوئی ہے اور نہ ہی مسلم مائیں بانجھ ہو گئی ہیں۔ یہ مائیں محبان رسول صلی اللہ علیہ وسلم پیدا کرتی رہی ہیں، پیدا کرتی رہیں گی۔ پھر وہ ترکھان کا بیٹا یو یا پٹھان کا بیٹا۔ تمہیں جہنم کا رستہ دکھانے کے لیے جنم لیتا ہی رہے گا۔

8 تبصرے

Comments are closed.