ہم دھوپ میں مینار کی مانند کھڑے ہیں

پچھلے سال ۶ ستمبر کو ہمارے اسکول میں یوم دفاع پاکستان  کی مناسبت سے ایک تقریب منعقد کی گئی۔ میزبانی دسویں جماعت کے خرم فیضان کے ذمہ تھی جبکہ میں نے اور میرے چند ہم جماعت ساتھیوں نے مل کر پاک آرمی کے لیئے ایک ملی ترانہ پڑھا۔ اس کے بعد پرائمری جماعت کے طلبا و طالبات کے مابین تقریری مقابلہ تھا جس میں میری بہن منال نے بھی حصہ لیا تھا۔ جب اس کا نام پکارا گیا تو میں بے ساختہ خاموش ہو گیا کیونکہ اسکی تیاری میں نے خود کروائی تھی اوراب میں اسے اسٹیگ پر پیش کرتے ہوئے دیکھنے کے لیئے بےتاب تھا۔ وہ اپنی معصوم آواز میں شرکا سے یوں ہم کلام ہوئی:  ’’ نشانِ حیدر ہمارے ملک کے قومی ہیروز کی پہچان ہے اور اسے اعزازی طور پر حاصل کرنے والے افراد ہمارا فخر ہیں، ہماری شان ہیں اور انہیں میں سے ایک بہادر آج میرا موضوعِ گفتگو ہیں۔

یہ ہیں کیپٹن کرنل شیر خان شہید۔۔۔  جو یکم جنوری ۱۹۷۰ کو ضلع صوابی کے ایک گاؤں نواں کلی میں پیدا ہوئے۔ ان کے دادا نے بھی کشمیر کی آزادی کی جنگ میں حصہ لیا۔ ان کی یاد میں ہی پوتے کا نام کرنل شیر خان رکھا گیا۔ شیر خان نے خالص دینی ماحول میں پرورش پائی۔ وہ بچپن ہی سے صوم وصلوہ کے پابند اور محب وطن تھے۔ ایک محنتی اور مثالی طالب علم تھے، جماعت ہشتم اور میٹرک کے امتحانات اعلی نمبر سے پاس کیئے۔ بچپن ہی سے دلیر، جنگجو اور مجاہدانہ صلاحیتوں کے مالک تھے۔ انہیں صلاحیتوں کے باعث ۱۹۸۷ میں پاک فضائیہ میں بھرتی ہوئے۔ یہاں مزید تربیت اور فوجی مشقیں ہوئیں۔ یہاں اپنی سپاہیانہ جواہر کے ذریعہ چیف آف اسٹاف ٹرافی حاصل کی۔

بقیہ کورسز میں اعلی کارکردگی کے سبب شاہین بچے کا خطاب ملا۔ بری فوج میں کمیشن کے امتحانات پاس کر کے سیکنڈ لیفٹنٹ بنے اور ان کا پہلا تقرر اوکاڑہ میں ہوا۔ یکم جولائی ۱۹۹۹ کو شیر خان کی کوشش اور خواہش کے مطابق ان کا تبادلہ کشمیر میں ہوا۔ جہاں دشمن سے شدید اور خونی جنگ جاری تھی۔ انہوں نےوہاں جاتے ہی بھارتیوں کو دردناک شکست دی۔ اسی جنگ کے دوران انہوں نے بہت سے مورچے اور چوکیاں قبضے میں لیں۔ یہ جنگ کارگل کے مقام پر ہوئی اس ہی لیئے اس معرکہ کو معرکۂ کارگل کہا جاتا ہے۔

وہاں ایک شب جب پہاڑ کی چوٹی پر بیٹھے ہوئے انہیں یوں محسوس ہوا کہ بھارتی افواج پہاڑوں کی چٹانوں کے پیچھے تازہ کمک کے انتظار میں بیٹھی ہے تاکہ پاکستانی فوج پر حملہ کر سکیں تو کرنل شیر خان نے دشمن کے حملے سے قبل ہی اپنے سپاہیوں کے ساتھ ان پر حملہ کر دیا اور چالیس بھارتی فوجی مار دیئے۔ شدید سردی کے باوجود کیپٹن کرنل نے پانچ چوکیاں قائم کیں جس سے بھارتیوں کے لیئے اپنے علاقے کا دفاع ناقابل تسخیر ہو گیا۔ معرکۂ کارگل سے قبل بھی اپنے اوپر حملے کی جرأت کرنے والے دشمن کو جہنم رسید کیا۔

ان کی بہادری اور جرأت مندی آنے والے سپاہیوں کے لیئے نمونہ ثابت ہوئی۔ معرکہ کے دوران ایک صبح بھارتی کرنل نے شیر خان کی پوسٹ پر مختلف اطراف سے حملہ کیا جس پر کرنل شیر خان نے جوابی حملہ کیا اور دشمن کے ہاتھ لگنے والے حصہ کو دوبارہ اپنے قبضے میں لے لیا۔مگر کافی زخم بھی آئے اورکیپٹن کرنل شیر خان وہ زخم سہہ نہ سکے اور شہادت کے مرتبے پر فائز ہوئے۔ شہادت کے بعد ان کے گاوں کا نام تبدیل کر کے کرنل شیر خان کلی رکھ دیا گیا۔ کرنل کی دلیری اور بے خوفی نے دشمن کو بھی اعتراف کرنے پر مجبور کر دیا۔ انہوں نے کہا،

’’ ہم دشمن فوج ضرور ہیں لیکن حریف کے ایسے بہادر سپاہی کو سلام پیش کرتے ہیں۔‘‘

ان کی شخصیت اقبال کے اس شیر کے مصداق تھی ؎

جھپٹنا ،  پلٹنا ، پلٹ  کر  جھپٹنا

لہو گرم رکھنے کا ہے اک بہانہ

جھپٹنا،پلٹنا اور پلٹ کرجھپٹنا واقعی ان کے لہو کو گرم رکھنے کا بہانہ تھا۔ ان کی شجاعت اور دلیری کے شاندار مظاہرے پر حکومت پاکستان نے انہیں بہادری کا سب سے بڑا اعزاز ’’نشان حیدر‘‘ عطا کیا۔  شیر خان صوبۂ سرحد کے وہ پہلے فوجی افسر ہیں جنہیں یہ اعزاز ملا۔ کیپٹن کرنل شیر خان نے بہادری کی ایک طویل داستان رقم کی اور وہ ہم سب کے لئیے مثالی نمونہ ہیں۔ اللہ تعالی ہمیں بھی اپنے ملک سے محبت کرنے والا، اس کی خاطر لڑنے اور مرنے والا بنائیں ‘‘

شرکاء میں سے بے شمار لوگوں نے آمین کہا اور منال کے شکریہ ادا کرنے سے لے کر اسٹیج سے اترنے تک اسکول کے ہال میں تالیوں کی آواز گونجتی رہی۔ پرنسپل سمیت تمام شرکاء منال کے اندازِ بیاں سے بے حد متاثر تھے۔ وہ تو تقریر کرکے نیچے اتر آئی مگر میں یہ سوچنے لگا کہ کیا دفاعِ پاکستان کے لئیے اس قدر محنت کی گئی ہے؟ کیا واقعی اس دنیا میں کوئی ایسا تھا جسے پاکستان کی بقا کی پرواہ ہو؟ کوئی وطن کی محبت میں جان کی بازی لگا دینے کا جذبہ رکھتا تھا؟

پھر ایک دم مجھے دادا کی وہ بات یاد آئی کہ ’’بیٹا اس ملک کی آزادی کو برقرار رکھنے کے لئیے ایک جان نہیں ہزاروں جانیں قربان ہوئی ہیں۔‘ُ‘ کیپٹن کرنل شیر خان تو ایک نام ہے، جبکہ ان کے علاوہ بھی ہزاروں لوگوں نے وطن کا محافظ بن کر اس کا دفاع کرتے ہوئے جامِ شہادت نوش کیا ۔ آج بھی بے شمار لوگ دشمنانِ وطن کے سامنے ڈٹ کر کھڑے ہوئے ہیں۔  ہم تو وہ قوم ہیں جو دفاعِ وطن کے لیئے برّی، بحری اور فضائی افواج رکھتے ہیں۔

۱۹۷۱ میں ہم ایم ایم عالم کی صورت فضا میں لہرا کر دشمن کے پرخچے اڑاتے ہیں تو ۲۰۱۹ میں حسن صدیقی اس ہی تاریخ کو دوہراتے نظر آتے ہیں۔ ڈرامہ ’’غازی شہید‘‘ پاکستان نیوی کی کامیابی اور جذبہء حب الوطنی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ پاکستان کا ایٹمی طاقت ہونا ملک کے دفاع کے لیئے پوری قوم کا ہر دم ہر پل تیار رہنے کے مترادف ہے اور پھر جب تک ہم سب متحد ہو کر دشمن ممالک کے خلاف دیوار بن کر کھڑے رہیں گے تب تک دفاعِ وطن ممکن رہے گا۔