اخلاقی حدود کو توڑتے ڈرامے

 پاکستان ایک اسلامی ملک ہے لیکن یہاں کے اقدار و روایات اب مغرب کے  رنگ میں ڈھل چکے ہیں اسلام کے نام پر حاصل کیا ہوا پاکستان ہر گزرتے دن کے ساتھ اپنی شناخت اور پہچان کھو رہا ہے جس مقصد کے لیےحاصل کیا گیا تھا وہ تو کہیں بہت پیچھے رہ گیا ہے اور آنے والی نسل تو اس سے نا آشنا ہی ہے  کیونکہ ماڈرن بننے کے چکر میں ہم اپنی اصل پہچان کھو چکے ہیں مغربی کلچر  کو اپنا لیا جس سے ہمارا حال اس کوے جیسا ہو گیا جو ہنس کی چال چلتا ہے اور اپنی چال بھی بھول جاتا ہے۔

 جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ موجودہ دور گلوبل ولیج کا دور ہے اور ذرائع ابلاغ یعنی میڈیا نے ہر گزرتے دن کے ساتھ ترقی کی ہے۔ پرانے وقتوں میں صرف ایک لے دے کر پی ٹی وی کا چینل آتا تھا جس پر سارا دن میں ایک ڈرامہ نشر ہوتا تھا جیسے جیسے چینل کی تعداد بڑھتی گئ ویسے ویسے  ڈراموں کی تعداد بھی بڑھتی گئی۔  پہلے تو صرف ایک ٹی وی ہوتا تھا جسے کامن روم میں سب ساتھ بیٹھ کر دیکھتے تھے جس میں آٹھ سے اسی سال تک کے لوگ سب ساتھ ہوتے تھے مگر اب تو ہر ایک کے ہاتھ میں الگ موبائل ہر کوئی اپنی دلچسپی کے ساتھ پروگرام دیکھتا ہے۔ رہی بات ڈراموں کی تو پہلے کے زمانے میں بہت ہی صاف ستھرے اخلاقیات سے بھرپور پروگرام دکھائے جاتے تھے، جو پوری فیملی  ساتھ بیٹھ کر دیکھتی تھی اور دیکھ سکتی تھی مگر جناب غیروں کی اندھی تقلید کے چکر میں اپنی تہذیب چھوڑ کر دوسروں کی دکھانی شروع کردی جس میں پہلے عورت کا دوپٹہ اترا اس کے بعد لباس اس قدر نازیبا ہو گیا کہ ایک نگاہ کے بعد دوسری نگاہ شرم کے مارے نہ اٹھ سکے۔

نظر آئیں بے پردہ جو چند بیبیاں

اکبر غیرت قومی سے زمیں میں گڑگیا

پوچھا جو آپ کا پردہ کیا ہوا

کہنے لگیں عقل پے مردوں کی پڑگیا

 باقی پردہ پڑ چکا ہے ہم سب کی عقلوں پر جو کچھ دجالی میڈیا دکھاتا ہے ہم بغیر کسی اعتراض کے دیکھے چلے جاتے ہیں، اب ان پروگراموں میں چاہے رشتوں کا تقدس پامال ہو رہا ہے یا اللہ کے احکام کی خلاف ورزی ہوئی اللہ کی قائم کردہ حدود توڑی جا رہی ہوں اللہ تعالی نے ہر رشتے کی کچھ حدود مقرر کی  ہیں جو ان ڈراموں میں توڑی جاتی ہیں مگر ہم اندھے بہرے بن کر دیکھے چلے جاتے ہیں اس کے خلاف بولتے ہی نہیں اور اب تو شاید یہ بے حیائی سے بھرپور ڈرامے ہمیں روٹین کی چیز لگتے ہیں۔ اب تو ہم اسے برا بھی نہیں سمجھتے کیونکہ ہم برائی دیکھ دیکھ کر اتنے اندھے ہوگئے ہیں کہ ہمیں بری چیز بری لگتی ہی نہیں ہے۔

 ہمارے رائٹر ڈائریکٹر کے پاس لگتا ہے دکھانے کے لیے صرف سازشی اور بے حیائی والا مواد ہی رہ گیا ہے کچھ اخلاقی پوزیٹو مواد تو ہے ہی نہیں اور بقول میڈیا والوں کے کہ ہماری عوام تو یہی سب دیکھنا چاہتی ہے۔ اور جو کچھ وہ ڈراموں میں دکھا رہے ہیں، وہ سب اس معاشرے میں ہو رہا ہے۔

 تو بھائی کوئی ان سے پوچھے کہ ہمارے معاشرے میں سالی بہنوئی کے ساتھ عشق لڑارہی ہے، یا کوئی دوست اپنی ہی دوست کے شوہر کے ساتھ خفیہ نکاح کرکے بیٹھی ہے، کوئی بیوی اپنے شوہر کے ہوتے کسی دوسرے مرد سے دل لگا کے بیٹھی ہے، یا کوئی مرد اپنی بیوی سے بے وفائی کر رہا ہے۔ اگر معاشرے کے  کچھ گھرانوں میں یہ مسائل ہوں گے بھی تو یہ سب دیکھا کر مزید پروموٹ کرنا کہاں کی عقلمندی ہے؟ اس سے تو برائی اور مزید بڑھے گی جن گھروں میں یہ مسائل نہیں ہیں وہاں بھی خدانخواستہ پیدا نہ ہو جائیں ایسے ڈرامے دکھانے سے خدارا گریز کریں جو اخلاقی حدود کو توڑتے ہیں رشتوں کے تقدس کو پامال کرتے ہیں ورنہ وہ وقت دور نہیں کہ غیروں کی اندھی تقلید چکر میں معاشرہ مزید بے راہ روی کا شکار ہو جائے۔