انسان کو عزت دیں

 ہم نے معاشرتی رتبوں کو پیمانہ سمجھتے ہوئے انسانوں کے معیار بنا دے ہیں اور اب ہم ان سے اسی حساب سے سلوک کرتے ہیں اور عزت دیتے ہیں ۔۔۔اگر آپ مالدار ہیں تو آپ بہت عزت دار ہیں اور اسی طرح اگر بہت غریب ہیں تو آپ بالکل بھی عزت دار نہیں اور کوئی بھی آپ کو ذلیل کرسکتا ہے۔۔۔۔۔ ہمارے رویے معاشروں کو جنم دیتے ہیں ۔۔۔۔ہمارے ہاں ایک خواجہ سرا جس کا اپنی تخلیق میں کوئی عمل دخل نہیں مگر ہم ساری عمر اسے اس بات کی سزا دیتے ہیں۔۔۔۔ ہم تمسخر کرتے ہیں ۔۔مذاق اڑاتے ہیں ۔۔۔۔اپنے پورے انسان ہونے پر فخر محسوس کرتے ہیں مگر بھول جاتے ہیں اسے اور مجھے پیدا کرنے والا ایک ہی ہے۔

ذرا سوچ کر بتائیں کب آپ نے کسی خواجہ سرا کی عزت کی ہے اور اسے انسان سمجھا ہے ۔۔۔۔۔۔یہ سب کرنے کےلیے تو کسی کو قارون کے خزانے کی ضرورت نہیں ۔۔۔۔۔ کیا آپ نے اسے یہ حق دیا یہ کہ وہ عام انسان کی طرح معاشرے میں اٹھ بیٹھ سکے ۔۔۔۔۔آپ تو اسے ہمیشہ حقارت سے دیکھتے ہو ۔۔۔۔اور اس دنگل میں گرنے پر مجبور کرتے ہو جسے پھر آپ اچھا نہیں سمجھتے۔۔۔۔۔۔۔کیا ہم ہمیشہ لوگوں کو انکی شکل و صورت یا رنگ و نسل کی بنا پر عزت نہیں دیتے ہیں حالانکہ ان میں انکا کوئی ہاتھ ہی نہیں یہ سارا معاملہ تو اوپر والے کے اختیار میں ہے۔۔۔۔وہ انسان کو جیسا چاہے اور جہاں چاہے تخلیق کرے۔۔۔۔۔تو پھر میں اور آپ اسکی تذلیل کرنے والے ہوتے کون ہیں۔

ادھر دنیا بھوک اور پیاس سے مر رہی ہے ۔۔۔۔۔اور ہمارے مسئلے کیا ہیں کہ فلاں کالا ہے ، گورا ہے ، لمبا ہے، پتلا ہے ۔۔۔۔عورت ہے مرد ہے یا خواجہ سرا ہے ۔۔۔ فلاں کا پوتا ہے فلاں کا نواسا ہے ۔۔۔۔کیونکہ ہمارے لیے انسان کا انسان ہونا کافی نہیں ہے ۔۔۔۔۔ہم چاہتے ہیں کہ دنیا میں کوئی انقلاب برپا کریں ۔۔۔۔۔دنیا ہمارے گن گائے مگر افسوس کہ ہم کسی انسان کو تھوڑی سی عزت نہیں دے سکتے. ہمارے ہاں اکیسویں صدی میں بھی کھسرا کھسرا ہی رہے گا ۔۔۔۔۔چھوٹو برتن ہی دھوئے گا ۔۔۔۔اسلم لمبو ۔۔۔شیدا موٹو ۔۔۔۔ اور پروین کالی ہونے کی وجہ سے تا عمر کنواری رہے گی ۔۔۔۔۔منحوس اور فلاں فلاں بھی اپنے عہدوں پر براجمان رہیں گے کیونکہ ہم سے کسی کو دو بول عزت نہیں دی جاتی۔

پھر ہم بچوں کے سامنے ملازمین کو گالیاں دے دے کر ان کی اتنی اچھی تربیت کرتے ہیں کہ وہ ضرور ہماری اس وراثت کو آگے لے کر چلیں گے اور پھر ہم کہتے ہیں آجکل کی اولادیں نافرمان ہیں ۔۔۔۔ جناب ہم نے کب کہا کہ آپ کچھ بڑا ہی کریں ہم تو بس اتنی گذارش کرتے ہیں کہ آج سے انسان کو انسان سمجھ لیجیے اور انسانیت کے ناتے ہر فرق کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اسے تھوڑی سی عزت دے دیجئے۔۔۔۔کسی کی تذلیل نہ کیجئے ۔۔۔۔یہی چھوٹا سا قدم ہماری نسلیں سنوار دے گا۔۔۔۔۔۔ بس اب ہمیں ذات پر حملہ کرنے والے بھونڈے مذاق ختم کر دینے چاہییں، اِس طرح کی حرکات نے ہمارے معاشرے کو کچھ نہیں دیا سوائے نفرت اور حقارت کے ۔۔۔۔

نہ فتح کیجئے دنیا… نہ ٹیکنالوجی کے کمالات دکھائیں…. نہ کیجئے ہمارا نام روشن ۔۔۔۔ بس مہربانی ہوگی انسان کو انسان سمجھ لیجیے اور اسکی عزت کیجئے، پھر اپنے دل اور اپنے ظرف کو کم از کم اتنا تو ضرور کشادہ کیجیے کہ جب کبھی باہمی معاملات اور آپس کے تعلقات میں کوئی اونچ نیچ جو ہوجایا ہی کرتی ہے اس میں جس درگزر اور جس رعایت کے آپ اپنی ذات کے لیے خواہش مند ہیں اسے دوسروں کے حق میں بھی درد مندی اور دل کے ساتھ تسلیم کیجیے… بس پھر اپنی آنکھوں سے خدا کی قدرت اور اس کی رحمت کا مشاہدہ کیجیے گا……. یقین جانیے کمال ہی ہو جائے گا…

8 تبصرے

Comments are closed.