صدیق اکبر

وہ ابو بکر رضی اللہ عنہ جن کے وصال پر خود حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ  اللہ نے ابو بکر کا نام صدیق رکھا  اور پھر آپ نے سورۂ الزمر کی یہ آیت تلاوت فرمائی:
”وہ جو سچائی لے کر آیا اور وہ جس نے اس سچائی کی تصدیق کی وہی متقی ہیں۔
 حضرت ابو بکر صدیق رضہ کو صدیق کہنے کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ واقعہ معراج کے بعد آقا صہ نے بعد قریش مکہ کو اپنی معراج سے آگاہ فرمایا تو انہوں نے آپ صہ کی تکذیب کی۔ جب ابو بکر رضہ کو واقعہ معراج کے بارے میں پتا چلا تو آپ نے فرمایا میں معراج پر جانے کی تصدیق کرتا ہوں۔ چنانچہ آپ صہ نے آپ کی اس تصدیق کی وجہ سے آپ کو صدیق کا لقب عطا فرمایا۔
جن کے متعلق خود جبرائیل نے اس وقت فرمایا ! جب معراج میں آپ کو آسمانوں کی سیر کرائی گئی تو آپ صہ نے حضرت جبرائیل علیہ سے کہا کہ میری اس سیر کو کوئی تسلیم نہیں کرے گا۔  حضرت جبرائیل رضہ نے عرض کیا آپ کی تصدیق ابو بکر رضہ کریں گے کیوں کہ وہ صدیق ہیں۔
جو زمانہ جاہلیت میں بھی ابراہیمی سیرت پر تھے کہ جب ابو بکررضہ کی عمر چار سال تھی تو آپ کے والد ابوقحافہ آپ کو اپنے ساتھ بت خانہ لے گئے اور وہاں پر نصب ایک بڑے بت کی طرف اشارہ کر کے آپ سے فرمایا:
”یہ ہے تمہارا بلند و بالا خدا اس کو سجدہ کرو۔“
ننھے ابو بکر نے بت کو مخاطب بنا کر کہا:
”میں بھوکا ہوں مجھے کھانا دے، میں ننگا ہوں مجھے کپڑے دے، میں پتھر مارتا ہوں اگر خدا ہے تو اپنے آپ کو بچا وہ پتھر کیا جوب دیتا ابو بکر نے اس کو ایک پتھر اس زور سے مارا کہ وہ گر پڑا۔ ابو قحافہ یہ دیکھ کر غضبناک ہو گئے۔ انہوں نے ننھے ابو بکر کو رخسار پر تھپڑ مارا اور وہاں سے گھیسٹے ہوئے ام الخیر کے پاس لائے۔ انہوں نے ننھے بچے کو گلے لگا لیا اور ابو قحافہ سے کہا:
”اسے اس کے حال پر چھوڑ دوجب یہ پیدا ہوا تھا تو مجھے اس کے بارے میں غیب سے کئی اچھی باتیں بتائی گئی تھیں۔“
حضرت انس بن مالک رضہ  سے روایت ہے کہ آپ احد پہاڑ پر گئے اور آپ کے ہمراہ حضرت ابو بکر رضہ، عمر رضہ اور عثمان رضہ  بھی تھے۔ احد پہاڑ پر زلزلہ آگیا۔ آپ نے اپنے پیر کی ٹھوکر لگائی اور فرمایا اے احد! ٹھہر جا، تجھ پر ایک نبی، ایک صدیق اور دو شہید موجود ہیں، جنھوں نے اسلام سے قبل  ہی  شراب اپنے اوپر حرام کر لی تھی۔
 آپ سے کسی نے پوچھا کہ آپ نے کبھی شراب پی؟ آپ نے فرمایا نعوذباللہ کبھی نہیں۔ اس نے پوچھا کیوں؟ آپ نے فرمایا میں نہیں چاہتا تھا کہ میرے بدن میں سے بو آئے اور مروت زائل ہو جائے۔
جن کے متعلق نبی صہ نے فرمایا!
حضرت عائشہ رضہ روایت  ہےکہ ایک روز میں اپنے حجرہ میں موجود تھی اور باہر صحن میں کچھ صحابہ آپ کے ہمراہ تھے۔ اس دوران میں ابو بکر آئے تو آپ صہ  نے فرمایا: جو لوگ کسی عتیق (آزاد) کو دیکھنا چاہیں وہ ابو بکر کو دیکھ لیں۔
 حضرت عبد اللہ بن زبیر رضہ سے مروی ہے کہ حضرت محمد صہ نے ابو بکر کے بارے میں فرمایا کہ اللہ نے ابو بکر کو آگ سے آزاد کر دیا ہے۔
ابو قحافہ نے اپنے فرزند کی تعلیم و تربیت پر خاص توجہ دی۔ اس طرح آپ صرف نہ پڑھنا لکھنا جان گئے بلکہ شرفاء کے دوسرے اچھے مشاغل میں بھی آپ کو دسترس حاصل ہو گئی مثلاً لڑنے کا ڈھنگ، ہیتھاروں کا استعمال، شعر گوئی اور شعر فہمی، تجارت وغیرہ۔ گھر میں دولت کی ریل پیل تھی لیکن آپ عیش و عشرت اور شراب خوری جیسے برے کاموں سے ہمیشہ دور رہے۔
۔
وہ صدیق رضہ کہ جنھوں نے ایک دفعہ خواب میں دیکھا کہ ایک چاند مکے پر نازل ہو کر کئی ٹکڑوں میں تقسیم ہو گیا اور اس کا ایک ایک ٹکڑا ایک ایک گھر میں داخل ہوا پھر یہ ٹکڑے باہم مل گئے اور مکمل چاند آپ کی گود میں آگیا۔
آپ بیدار ہوئے تو تعبیر الرویاء کے ماہر  ایک شخص کے پاس گئے اور اس سے اپنے خواب کی تعبیر پوچھی۔ اس نے بتایا کہ تم آخری نبی صہ کی پیروی کرو گے جس کا انتظار کیا جا رہا ہے اور تم اس نبی کے پیروؤں میں سب سے افضل ہو گے۔
وہ صدیق کہ جب اعلان نبوت کے چوتھے سال اعلانیہ دعوت اسلام کا حکم نازل ہو تو رسول اللہ نے لوگوں کو اعلانیہ حق کی جانب بلانا شروع کر دیا۔ اس پر مشرکین قریش بھڑک اٹھے اور انہوں نے مسلمانوں پر بے تحاشا ظلم و ستم ڈھانا شروع کر دیے۔
 بالخصوص  اسلام قبول کرنے والے غلاموں اور لونڈیوں پر انہوں نے ایسے ایسے ظلم ڈھائے کہ انسانیت سر پیٹ کر رہ گئی۔ ظلم و ستم کے اس دور میں ابو بکر صدیق رضہ نے بےدریغ مال خرچ کر کے متعدد مظلوم غلاموں اور لونڈیوں کو ان کے سنگدل آقاؤں سے خرید خرید کر آزاد کروایا۔
حضرت بلال رضہ  کو ایک معقول رقم کے عوض امیہ سے خرید لیا اور آزاد کر دیا۔ ایک اور روایت ہے کہ ابو بکر صدیق نے اپنے ایک تنو مند غلام اور چالیس اوقیہ چاندی کے بدلے حضرت بلال رضہ کو خریدا اور آزاد کیا۔
وہ صدیق رض جنھیں پیغمبر صہ نے مرض الوفات میں حکم دیا کہ وہ  مسجد نبوی صہ میں امامت کریں۔ اور یوں ان کی امامت کی تصدیق ہوتی ہے۔
حضرت ابو بکر صدیق عام الفیل کے دو برس اور چھ ماہ بعد سنہ 573ء میں مکے میں پیدا ہوئے۔  ان کا شمار قریش کے متمول افراد میں ہوتا تھا۔ جب پیغمبر اسلام نے ان کے سامنے اسلام پیش کیا تو انہوں نے بغیر کسی پس و پیش کے اسلام قبول کر لیا اور یوں وہ آزاد بالغ مردوں میں سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والے کہلائے۔
 وہ جن کی صداقت کی گواہی قرآن اور آسمانوں میں دی گئ اور خود حضرت علی رضہ نے ان کے متقی اور صدیق ہونے کی گواہی دی، آج اس باب العلم کے نام نہاد چاہنے والے درحقیقت اسوہ علی رضہ سے مکمل انحراف کرنے والے اپنی گز گز بھر کی زبانیں چلارہے ہیں یہ علی رضہ سے محبت کرنے والے ہر گز نہیں ہیں درحقیقت یہ علی رضہ کے باغی ہیں۔
یہ کل بھی علی رضہ حسن اور حسین کے باغی تھے آج بھی ان کے باغی ہیں ان سے عہد وفا توڑنے والے اسلام کو فرقوں میں بانٹنے والے ہیں اور لاشوں پر واویلا کرنے والے ہیں لیکن ان کو یہ پتا ہونا چاہیے کہ اسلام کو زک پہنچانے کے شوقین اپنا کالا منہ لے کر ہی دنیا سے جائیں گے اور آخرت میں بھیانک انجام سے دوچار ہوں گے مگر واویلا کرنے سےصحابہ کے جانثار ان قاتلوں کو مظلوم ہر گز نہیں سمجھیں گے۔

جواب چھوڑ دیں