کہ دل کو حق نے کیا ہے ‘ نگاہ کا پیرو’۔

جوائنٹ فیملیز کا ایک بڑا مسئلہ بے پردگی سے جنم لینے والے واقعات ہیں ۔ ایسے گھروں میں بےحد احتیاط کی ضرورت ہے یہاں حتی الامکان پردے کی کوشش میں رہنا چاہئے ۔ عورتوں کا بڑی سی چادر پہنے رہنا ، غیر ضروری دیوروں ، جیٹھوں سے باتیں کرنا ، گپیں لگانا، ہنسی مذاق کرنا بالکل ممنوع ہے ۔ یہ واقعی غلط فہمی ہے کہ شوہر کے بھائیوں ، کزنوں ، چچا زاد، ماموں زاد، خالہ زاد سے پردہ نہیں حالانکہ یہ بالکل غیرشرعی ہے ۔ ان تمام افراد سے ایسے ہی پردہ ہے جیسے غیر محرموں سے ۔ پھر اب یہ رواج کافی زور پکڑ گیا ہے کہ شادی سے پہلے پرکھنے کی خاطر منگنی کرکے ایک وسرے کے ساتھ تنہائی میں رہنا ، تقریبات میں جانا، تفریح کرنا یا اس طرح کی دیگر سرگرمیوں میں ملوث رہنا شرعاً ممنوع ہے تو اس کو رائج کیا جا رہا ہے ۔ میڈیا کی بے باکی کو اپنا نا مغربی نظام کا المیہ ہے ۔ جس کا تعلق اسلام سے قطعاً نہیں ہوسکتا کیونکہ اسی بہانے لڑکیا ں بنتی ، سنورتی ہیں۔

والدین بلکہ شے دیتے ہیں اور روکتے ٹوکتے بھی نہیں ڈرتے ہیں کہ منگنی نہ ٹوٹ جائے۔ لڑکیوں کا حال یہ ہے کہ باریک کپڑے پہنے ہوئے ، کوہان کی طرح بال بنائے ہوئے جو عبائے سے بھی کوہان کی طرح نظر آئیں ، یا کھلے بال ، سر جھاڑ منہ پھاڑ گو یا سیدھی راہ سے بہکنے اور بہکانے والیاں، خوشبو لگانے والیاں ظاہر ہے جنت کی خوشبو بھی نہ پا سکیں گی تو پھر اس کا سامان کیوں کریں؟ آجکل تو لباس اتنا باریک چالی دار کہ بعض حصوں کا جمال جھلکتا ہے جبکہ آپؐ نے پہلے ہی فرمادیا تھا جو آج ہمیں نظر آرہا ہے کہ برہنہ پن تو حیوانی خصلت ہے۔

ظاہر ہے کہ جب انسانی ربانی تعلیمات کو اختیار نہ کرے گا تو وہ خود بخود حیوانوں سے بد تر ہوتا چلا جاتا ہے ۔ سورۃ اعراف میں صاف کہا گیا ہے کہ یہ لوگ جانوروں سے بدتر ہیں ۔ ہم مسلمانوں کو اس طرح کی آگا ہی بد اعمالیوں اور برے نتائج سے بچانے کے لئے دی گئی ہیں تاکہ اپنانے کیلئے ، حفاظتی اقدامات ہمارا اپنا اختیار ہونا چاہئے ۔ ظالم اور جاہل لوگوں میں یا ان کی موجودگی میں بے حیائی پھیلنے کا اندیشہ زیادہ رہتا ہے کیونکہ نفس پرست عیاش لوگ ہی خواتین کو عیاشی کا کھلونا بناتے ہیں اور خود وہ خواتین بھی بے حیائی کا ارتکاب کرکے گناہ جاریہ کی مرتکب ہوتی ہیں اس لئے اتنے بھیانک واقعات معصوم بچیوں بلکہ بچوں یعنی لڑ کوں کے ساتھ واقع ہوتے ہیں جو اسلامی معاشرے کیلئے قابل قبول کبھی نہیں کہیں نہیں ہوسکتے۔

ظاہر ہے اس کیلئے احادیث میں ایسے مرد وزن پر لعنت برسائی ہے جو دیکھنے دکھانے کا موقع دے کر معاشرہ کو بگاڑیں ۔ اللہ رب العزت کا فرمان ہے کہ اے نبیؐ ایمان والے مردوں سے کہہ دیجئے کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں ۔ یہی پاکیزگی ہے یہی حکم عورتوں کیلئے ہے کیونکہ واقعی آنکھوں کا فتنہ بہت ہی مہلک ہوتا ہے کیونکہ یہی نظر بد ابلیس کا زہر آلود تیر ہے جسے عشق کا پیامبر بھی کہا گیا ہے ۔ حافظ ابن القیم نے فرمایا کہ نگاہ بھی تو خواہشات کی پیامبر اور قاصد ہے اس کی حفا ظت ہی شرم گاہ کی حفاظت ہے۔

جس نے نظر کو آزاد کردیا گویا اپنے آپ کو ہلاکت میں ہی ڈال لیا۔ ایک اور جگہ میں نے پڑھا کہ ابلیس کہتا ہے کہ میری نظر تو قدیم تیر کمان ہے جو کبھی خطا نہیں کرتی ۔ حضورؐ کا ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ لعنت برسائے دیکھنے والے پر اور دیکھنے کا موقع دینے والی پر ” اللہ اکبر ! آج ہم کہاں بچتے ہیں ہاتھوں میں موجود موبائل ، اخبار ورسائل ، فلم ، ڈرامے ، کیا خبرنامے یا جگہ جگہ لگے سائن بورڈ بلکہ گھروں میں آویزاں عورتوں کی حسین تصاویر ، انٹرنیٹ پر فحش مناظر خود بخود پیش خدمت ہیں اور ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ یہاں تک کہ بچے بھی عادی ہوتے جا رہے ہیں تو پھر حیا کا تصور کیسے پنپ پائے گا ؟؟؟ میری امی اکثر کہتی تھیں جو بہت خوبصورت تھیں کہ تمہارے ابا مجھے اکثر یہ شعر سناتے تھے نہ جانے انکا یہ تجربہ ہو گا ؟ کہ…

اچھی صورت بھی کیا عجب شے ہے

جس   نے   ڈالی   بری   نظر  ڈالی

واقعی ایک مرتبہ برسات میں ہم اسلام آباد میں گھومنے گئے ۔ ہمارے ساتھ ایک فیملی تھی انکی تیرہ سالہ لڑکی انتہائی حیران پریشان، اچھے شوق رنگ کے کپڑے پہنے ہوئے تھے جو بہت ہی حسین لگ رہی تھی کہنے لگی آنٹی سب مجھے کیوں دیکھ رہے ہیں؟ واقعی مجھے بھی اندازہ ہوا کہ لوگوں کی نظریں کتنی بری ہیں؟ جن سے کوئی بھی نہیں بچ پارہا ۔ واپسی پر میں نے اس سے کہا کہ اسی لئے تو پردے کا حکم ہے بیٹا آپ بڑی چادر پہنا کریں اور چہرے کا تھوڑا پردہ کریں ۔ اپنے آپ کو بری نگاہ سے بچا سکتی ہیں ۔ اسکی جھجک نے میری بات سمجھ لی اور اس نے ماں سے کہا کہ امی مجھے بھی بڑی چادر دیا کریں۔ جو ابھی تک اپنی بیٹی کو بچی سمجھ رہی تھیں۔ یقینا وہ بچی ہی تھی مگر لوگوں کی نظریں !!! اقبال نے اسی لئے شاید اپنے آفاقی کلام میں بڑی ہی خوبصورت بات کہی کہ…

نگاہ پاک ہے تیری تو پاک ہے دل بھی

کہ دل کو حق نے کیا ہے نگاہ کا پیرو

محترم علامہ اقبال واقعی کتنی گہری سوچ رکھتے ہونگے جوحیا کے تصور سے واقف ہو کر تبلیغی شاعری کرتے، جیسے کہ حیا کا مفہوم ہے کہ “حیا صرف شرم کرنے کا نام نہیں ہے کیونکہ یہ تو ہمارے جسم کے تمام اعضاء اور احساس کو اللہ تعالیٰ کے تابع و فرمان بنانے کا نام ہے ” یعنی ہماری سوچ ، خیالات تک نیک ہوں ۔ ان میں ملاوٹ نہ ہو یعنی آنکھوں کو نظر بد سے بچانا ، بے ہودہ مناظر سے بچنا اور زبان کو حق اور سچ پر رکھنا ، اپنے نفس کو اللہ کی طرف متوجہ رکھکر کام کرنا اور کانوں کو بھی غیبت ، چغلی سے بچاتے رہنااور حلال کمائی سے پیٹ کے ایندھن کو بجھانا ۔ گویا اللہ کی نگہبانی کو نظر میں رکھ کر آخرت کی جواب دہی کیلئے ہر دم تیاری اور ترجیح ہی تو ایک لحاظ سے صحیح حیا ہے ورنہ تو بے باکی اور نافرمانی بدترین عمل ہے جو حیا کا تضاد ہے۔

اللہ تعالیٰ ہمیں صحیح معنوں میں حیا کا مفہوم سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے کیونکہ جب غصے اور بگاڑ کی صورت میں ایک چپ ہمیں سو سکھ پہنچا سکتا ہے تو ایک برائی کی چنگاری آگ کی تباہ کاریاں رکھوانے کیلئے کافی ہے ۔ پس ہمیں ہر کام ، ہر معاملے ، ہر روئیے میں ، اللہ کی مرضی کو مدنظر رکھتے ہوئے انجام دینے کی توفیق عطا فرمائے اور ہر لمحے کی زندگی اپنے حکم کے تابع بنا ۔ آمین

جواب چھوڑ دیں