حق و باطل کے معرکے کا پہلا شہید

جب پہلا خط بھیج کر صبر نہ ہوا تو ڈیڑھ سو خطوط مزید لکھے گئے جب اس پر بھی بس نہ ہوا تو مزید خطوط لکھے گئےاور عرض کیا گیا کہ! “زمین سر سبز ہوچکی ہے،پھل پک چکے ہیں،آپ کی مدد کے لیے لشکر تیار ہے،آپ تشریف لے آئیے”

ہانی بن ہانی سبیعی اور سعید بن عبداللہ الحنفی کے ہاتھ اس مضمون کا خط بھیجا گیا تو امام عالی مقام رضہ نے اہل الرائے اصحاب کے مشورے کے بعد ان دونوں حضرات اہل کوفہ کو جوابی خط لکھ دیا جس میں ان کی رائے کا احترام کرتے ہوئے ان کے پاس جلد پہنچ جانے کی تسلی دی۔

اس کے ساتھ ہی اپنے چچا زاد بھائ کو کوفہ کے حالات کا درست اندازہ کرنے کے لیے روانہ کردیا۔وہی اہل کوفہ جنھوں نے آپ رضہ کے والد کی مدد سے کنارہ کرکے اکیلا چھوڑ دیا تھا۔وہی اہل کوفہ جنھوں نے آپ کے بڑے بھائ کی بیعت توڑی تھی،آج آپ کی امامت کے خواہاں تھے واللہ کیا تاریخ سنگ دلی کا کوئ نیا باب لکھنے جارہی تھی،بے وفائ کی نئ داستان رقم کرنے جارہی تھی یا عشق کو سولی پر لٹکانے جارہی تھی۔

آہ کیسا درد ناک منظر ہوتا ہے جب آپ کے ہم نوا منہ موڑ لیں اور غیروں کے ساتھ مل جائیں۔ کیسا جان کو توڑ دینے والا مرحلہ ہوتا ہے جب دعوت دینے والے مہمان ہی کو زحمت سمجھنے لگیں بے وفائ،کج ادئ،بے مروتی،بے مہری اور  غداری کہنے کو تو چھوٹے چھوٹے الفاظ ہیں مگر اس کے نتائج بڑے بڑے اور بھیانک ہیں۔

اور انھوں نے بھگتا ان تمام الفاظ کے نتائج کو جب وہ اپنے چچا زاد بھائ کے حکم پر کوفہ پہنچے اور مختار بن ابی عبید کے گھر اترے نام نہاد شیعان علی آپ رض کے پاس آتے اور رو رو کر یقین دلاتے کہ امام حسین رضہ کی حمایت میں کوئ کسر نہ اٹھا رکھیں گے چند ہی دن میں بعض مورخین کے مطابق 18 ہزار اور بعض کے مطابق تیس ہزار افراد نے آپ رضہ کے ہاتھ پر امام حسین رضہ کی بیعت کر لی تو آپ رضہ نے بھی مطمئن ہو کر امام حسین رض کو عابس بن ابی شبیب کے ذریعے خط بھجوادیا جس میں امام کو اطلاع دی گئ کہ اہل عراق امام رضہ کے حامی ہیں۔

مگر آگے کیا ہونا ہے؟کیا وہ لوگ،بے وفائ کا لفظ جن کی عرفیت بن گیا ہے قائم رہیں گے ؟ یہ عین وقت پر بھاگ تو نہیں جائیں گے؟ یہ ایک بڑا محاذ کھول کر پیچھے تو نہیں ہٹ جائیں گے؟ یہ خود امتحان سے بھاگ کر اسے تو امتحان میں نہیں ڈال دیں گے ؟جو نام کا نہیں عمل کا بھی مسلم ہے جو امام رضہ کے حکم پر جان ہتھیلی پر رکھ کر نکلا ہے۔

اسی دوران کچھ سازشی اور طاغوت کے حمایتیوں کے پیغام یزید کے پاس پہنچتے ہیں کہ نعمان بن بشیر کو عہدہ بدر کر کے ابن زیاد کو کوفے کا گورنر بنادیا جائے کہ نعمان بن بشیر یزید کی بیعت تسلیم نہ کرنے والوں سے نمٹنے کا حوصلہ نہیں رکھتے اور یزید ایسا ہی کرتا ہے ایک فاسق اور فاجر کو گورنر کوفہ بنادیتا ہے۔

ابن زیاد نے آتے ہی شہر کی سر برآوردہ شخصیات کو جمع کیا اور انھیں حکم دیا کہ اپنے محلے کے پردیسی،خارجی اور مشتبہ لوگوں کو پکڑ کر میرے پاس بھیجو جس نے اس حکم میں کوتاہی کی اس کو اس کے گھر کے دروازے پر پھانسی دے دی جائے گی۔

اس صورت حال کے بعد جناب مسلم بن عقیل رضہ  جو کہ باقاعدہ ایک لشکر اپنے حمایتیوں کی صورت میں تیار کر چکے تھے،مختار بن ابی عبید کے گھر سے نکل کر ہانی بن عروہ کے گھر میں پناہ لیتے ہیں اور اس کے بعد خود کو شیعان علی کہلوانے والے ہانی بن عروہ کے گھر جمع ہوا کرتے ہیں۔

مگر ابن زیاد کے جاسوس معقل التمیمی نے بڑی چالاکی سے یہ پتا لگا لیا کہ آپ رضہ ہانی بن عروہ کے گھر ہیں اس نے ظاہری طور پر آپ رضہ کی بیعت کی مگر یزید کی جاسوسی کرتا رہا سب سے پہلے آپ کی محفل میں داخل ہوتا اور سب سے آخر میں نکلتا اس طرح اس نے ساری صورتحال ابن زیاد کو بتادی ۔

کچھ ہی دنوں میں معقل کی سازش سامنے آگئ اور ہانی کو ابن زیاد کے دربار میں گرفتار کر کے لے جایا گیا تو ہانی بن عروہ پر یہ حقیقت عیاں ہوگئ کہ معقل کو بطور جاسوس مقرر کیا گیا تھا اور اب اس کے لیے اعتراف کے سوا کوئ چارہ نہیں ہے  تو اس نے کہا:  “اے امیر میں نے خود مسلم کو اپنے گھر نہیں بلایا جب وہ آگئے تو میں انھیں پناہ دینے پر مجبور ہوگیا”

اس پر زیاد نے ہانی کو مسلم بن عقیل کو حاضر کرنے کا حکم دیا مگر ہانی نے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ میں اپنے مہمان کو قتل کرنے کے لیے پیش نہیں کر سکتا تو ابن زیاد نے ہانی کو بہت مارا اور قید میں ڈال دیا۔

اس اکیلے سوار کو جسے وقت کے امام رضہ نے اپنا نمائندہ بنا کر بھیجا تھا اس کے ساتھ غداری کا سفر یہیں سے شروع ہوگیا اس امام رضہ کا نمائندہ جسے خدا نے زمین کا امام تسلیم کرلیا تھا اور روئے ارض کی تمام مخلوق نے اپنا امام مان لیا تھا سوائے یزید اور اس کے حواریوں کے۔

دل مضطر کی بے کلی بڑھتی بھی اب بڑھتی جائے گی کہ اب جو کچھ ہونے والا ہے اسے سہنے کی تاب نہیں ہے اسے سننے کی ہمت نہیں ہے اسے لکھنے کا حوصلہ نہیں ہے وہ جن کے ہاتھ پر ہزاروں نے بیعت کرلی ہے اب تنہا رہ جائیں گے۔

ابن زیاد نے خوف کو ہتھیار بنا لیا ہے ظلم کی داستان شروع کردی ہے جان پر کھیل کر ساتھ دینے کی بات کرنے والے جان کے خوف میں مبتلا ہیں،کہ ابن زیاد نے جکم دیا ہے کثیر بن شہاب کو کہ وہ قبیلہ مذحج کے پاس جائے یزید کی سزا کاڈراوا دے کر مسلم کا ساتھ چھوڑ کے نافرمان بننے کی ترغیب دے۔

اس نے کہلوا بھیجا ہے محمد بن اشعث کو کہ وہ کندہ اور حضر موت کے قبائل کے پاس جا کر انھیں موت سے ڈرائے اور مسلم رضہ کا ساتھ چھوڑ کر نافرمان بنائے۔ اور پھر  یہی ہوتا ہے کہ زمین اور آسمان بھی اپنے پیاروں سے شرمندہ ہیں مگر حضرت انسان کی خساست کو لحاظ نہ آیا۔

ہزاروں لوگ مسلم بن عقیل رضہ کا ساتھ چھوڑ گئے ان کا ساتھ جن کو نبی صہ کے نواسے نے منتخب کیا تھا اب صرف تیس لوگ ہیں مگر آخر میں یہ تیس بھی ابن زیاد کی دھمکیوں سے ڈر جاتے ہیں اور یوں مسلم اب اکیلے ہی مسلم ہیں تنہا مسلم ہیں تاریخ نے ایسے ہرجائ نہ دیکھے تھے،فلک نے ایسی بے وفائ نہ دیکھی تھی،زمین ندامت کے پسینے میں ڈوبی ہوئ تھی کہ آج اس پر محمد صہ کی امت سے محمد صہ کے نواسے سے غداری کرنے والے کھڑے ہیں۔

وہ جو جنت میں جوانوں کے سردار ہیں وہ جو نبی صہ کے لاڈلے ہیں جن کے بارے میں آقائے دو جہاں صہ نے فرمایا تھا حسین رضہ مجھ سے ہیں اور میں حسین رضہ سے۔ آپ صہ  کے شانوں اور زانوئے مبارک پر تشریف کا شرف رکھنے والے کے غدار آج زمین کو عرق عرق کیے دے رہے تھے۔

اب مسلم رضہ ان غداروں کے بعد تنہا گلیوں میں پھر رہے ہیں، اندھیرا چھا چکا ہے ایک آدمی بھی نہیں بچا جو مسلم رضہ کی ڈھارس بندھائے۔ آہ!کلیجہ چھلنی ہوا جاتا ہے آنکھیں اشکوں کی جگہ خون برسانے لگتی ہیں جب چشم تصور سے مسلم رض کہ اس تنہائ اور بے بسی کو سوچو تو۔

بہرحال اسی حالت میں قبیلہ کندہ کی ایک عورت طوعہ کے مکان پر جاپہنچتے ہیں،پانی پیتے ہیں عورت پانی پلا کر گھر جانے کا کہتی ہے آپ رضہ خاموش کھڑے ہیں،طوعہ سختی سے کہتی ہے تو مسلم گویا ہوتے  ہیں! “اے محترم خاتون !اس شہر میں میرا نہ گھر ہے نہ عیال میں تم سے ایک درخواست کرتا ہوں تم اسے منظور کر لوگی تو شاید میں تمھیں اس کا بدلہ دے سکوں۔

عورت نے پوچھا تمھاری درخواست کیا ہے ؟مسلم بن عقیل نےرضہ نے کہا کہ میں مسلم بن عقیل ہوں کوفہ والوں نے میرا ساتھ چھوڑ دیا ہے،تم مجھے اپنے گھر میں پناہ دے دو”۔ عورت نے انھیں پناہ دے دی،بستر بچھایا کھانا پیش کیا لیکن آپ رض عنہ نے کھانا نہ کھایا۔

طوعہ کا بیٹا بلال گھر آیا تو اسے شک ہوگیا اور اس نے ضد کر کے ماں اے ساری صورتحال جان کر سزا کے خوف سے یہ خبرعبد الرحمان محمد بن اشعث کے ذریعے ابن زیاد تک پہنچادی کہ مسلم بن عقیل رضہ اس کے گھر  چھپے ہیں۔

ابن زیاد نے ابن اشعث کو سپاہیوں کے ہمراہ مسلم رضہ کو گرفتار کرنے بھیجا مگر مسلم رضہ نے جاں بازی سے اتنے سارے لوگوں کا مقابلہ کیا اور پھر ابن اشعث کی امان دینے کی بات پر خود کو اس کے حوالے کردیا مگر ابھی بے وفائ کا ایک گھاو باقی تھا جوں ہی ان کی تلوار ہاتھ سے چھینی گئ انھیں اندازہ ہوگیا کہ ان کے ساتھ دھوکا ہوا ہے۔

جناب مسلم بن عقیل رضہ کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر عبد اللہ بن عباس نے کہا: جس کام کے لیے تمھیں مقرر کیا گیا تھا،اگر کسی دوسرے کو اس کام پر مقرر کیا جاتا اور اس پر وہی افتاد پڑتی جو تم پر پڑ رہی ہے تو وہ کبھی نہ روتا”

مسلم رضہ نے اس موقع پر تاریخی جواب دیا “تمھارا خیال ہے کہ میں موت کے خوف سے رو رہا ہوں !ہر گز نہیں مجھے اپنے قتل کیے جانے کی پروا نہیں میں اپنے خاندان کے لوگوں پر رو رہا ہوں جو عنقریب تمھارے پاس پہنچنے والے ہیں میں حسین رضہ اور آل حسین رضہ کو رو رہا ہوں”۔

اس کے بعد تاریخ نے وہ منظر بھی دیکھا کہ جناب مسلم رضہ نے دربار میں داخل ہوکر نہتی جان ہو کر بھی طاغوت کے آگے گھٹنے نہیں ٹیکے اور دو بدو ابن زیاد کی کاٹ دار باتوں کا جواب دیا سعد بن ابی وقاص رضہ کے بیٹے کو وصیت کی جس میں اپنی نعش امام حسین رضہ کے پاس بھیجنے کا کہا تاکہ وہ کوفے کا قصد نہ کریں۔

اس کے بعد ابن زیاد کی لغو باتوں کے جواب میں برابر آپ رضہ کلمہ حق کہتے رہے یہاں ابن زیاد نے بکیر بن عمران کو حکم دیا کہ مسلم رضہ کو چھت پر لے جا کر ان کا سر قلم کردیا جائے۔ حسینی قافلے کا نمائندہ اپنی شہادت تک تکبیر استغفار اور درود پڑھتا رہا اور تاریخ نے اپنے صفحات پر جلی حروف میں ثبت کردیا!

تاقیامت امر ہوجانے والے حق و باطل کے معرکے کا پہلا شہید مسلم بن عقیل رضہ ؎

حسینی قافلے کا پہلا مظلوم شہید

کربلا کی راہ گزار کا  پہلا شہید

جواب چھوڑ دیں