فلسفۀ شھادت امام حسینؓ

شھادت امام حسینؓ اور اہل بیت کے دردناک اور المناک سانحے کو یاد کر کے رہتی دنیا تک مسلمان اپنے دکھ اور غم کا اظہار کرتے رہیں گے۔نواسۀ رسولؐ نے اپنے رب کی اطاعت اور محبت کی خاطر  عظیمت کی ایک ایسی انمٹ داستان رقم کی جس نے اسلام کا پرچم رفعت و عظمت کی ایسی بلندی پر پہنچا دیا جہاں پر وہ تاقیامت لہرا تا رہے گا ۔

اسلامی ریاست اپنی حقیقی نہج پر قائم رہے اس مقصد کے لیۓ حضرت امام حسین ؓ نے اپنی اور اپنے پورے خاندان کی زندگیاں قربان کر دیں ۔یزید نے  شخصی بادشاہی نظام کی ابتدا کر کے اللہ کے بناۓ خلافت کے نظام کو مسخ کر کے رکھ دیا تھا ۔

اللہ کی زمین پر اللہ کے نظام کے بجاۓ دولت اور اختیار کے نشے میں دھت عاقبت نا اندیش حکمرانوں کے بادشاہی دور کا آغاز یزید جیسے فاسق فاجر کے دور اقتدار سے ہی ہوا ۔جس اسلامی ریاست میں خلفاۓ راشدینؒ رعایا کے سامنے اپنے ہر قول وفعل کے لیۓ جوابدہ رہتے تھے اسی اسلامی ریاست میں سچائ کا آئینہ دکھانے والوں کو بدترین تشدد اور سزائوں کا حقدار اور واجب القتل قرار دیا جانے لگا ۔حضرت امام حسین ؓ اپنی  اعلی ترین  فہم و فراست  کے سبب  مستقبل میں پیش آنے والے ان سنگین حالات کا مکمل ادراک رکھتے تھے ۔

پیارے نبی حضرت محمدؐ اور صحابہ اکرام ؓ کی طویل جدوجہد اور سینکڑوں  قربانیوں کے بعد قائم ہونے والی پہلی اسلامی ریاست کو ہرقیمت پر وہ  بچانا چاہتے تھے ۔یزید نے ہزاروں کی تعداد میں فوجی  بجھوا کر بہّتر مظلومین کو انسانی تاریخ کے بد ترین جبر اور تشدد کے بعد شہید کر دیا ۔۔بلا شبہ اس المناک واقعے کی  مزمت زندگی بھر بھی کریں تب بھی”  اہل بیت ” کو پہنچاۓ جانے والے ایک چھوٹے سے چھوٹے دکھ کا ازالہ ممکن نہی ۔۔۔

آج ہم بحیثیت ایک مسلمان اگر اپنے معاشرےکا جائزہ لیں تو گردنیں شرم سے جھک جاتی ہیں ۔بے حیائ بے ایمانی فسق وفجور عام ہے ۔ دجالی فتنے ہماری نوجوان نسل کو اسلامی شعائر سے دور کرنے کے لیۓ الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کے زریعے بے راہ روی اور مخلوط سوسائٹی کا رسیا بنا رہے ہیں  ۔اسے روکنے کی کوشش تو دور کی بات برا کہنے کو بھی ہم  ہمت جتا نہی پاتے۔

 موجودہ صدی میں ریاستی اقتدار کے لیۓ  بین الاقّوامی نظام  “جمہوریت “رائج ہے ۔اس نظام کی کیا کیا  خرابیاں بیان کریںْ ۔ یہ نام کو تو  عوامی حکومت ہے مگر اسمیں سیاسی پارٹیاں اپنے اثرورسوخ اور سرماۓ کے بے دریغ استعمال سے الیکشن میں با آسانی ووٹوں کا پلڑا اپنی طرف جھکا لیتی ہیں ۔پھر چاہے وہ سر سے پائوں تک  بے ایمانی اور ناجائز کاموں میں ملوث ہوں  ان پر کوئ انگلی اٹھانے کی ہمت نہی کر سکتا۔۔۔ملاوٹ  ْ زخیرہ اندوزی ‘ جھوٹ سب برائیاں خوب پنپ رہی ہیں ۔

جنت کے شہزادو ں کی شھادت کے مقصد کو اگر ہم سمجھیں اور مانیں تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم اپنے اردگرد ہونے والی ان تمام خرابیوں کے سّدباب کو اپنا مقصد حیات نہ بنائیں ۔موروثی سیاسی پارٹیاں عین بادشاہی نظام کے قواعد و ضوابط پر قائم  ہیں ۔جہاں باپ کے بعد وراثت میں اقتدار کا حق بیٹے یا بیٹی کو حاصل ہو جاتاہے یہ ممکن ہی نہی کہ  ہم عاشق رسولؐ ہونے  کے دعوے دار توہوں پر جس “اسلامی نظام حکومت ” کوبچانے کے لیۓ آل رسولؐ نے گردنیں کٹوائیں اس کے پامال ہونے پر ہمارا خون جوش نہ مارے ۔۔۔۔

ہم سب محرم الحرام کے پہلے عشرے میں اس واقعے کو یاد کر کے روزےبھی  رکھتے ہیں۔  اور حلوے، شربت ، حلیم  بانٹ کر  سمجھ لیتے ہیں کہ  اپنا حق ادا کر دیا ۔ اگر حق ہی ادا کرنا ہے تو آج اور ابھی سے یہ مصّمّم ارادہ کر لیں کہ اپنی زندگی میں ہمیشہ حق کا ساتھ دیں گے برائ کے خلاف آواز بلند کریں گے اور اسلامی شریعت کے نفاز کی جدوجہد میں عملی حصہ لیں گے ۔        علامہ اقبال نے کیا خوب کہا ہے ؎

حقیقت  ابدی   ہے  مقام   شبیری ؑ

بدلتے رہتے ہیں مقام کوفی و شامی

جواب چھوڑ دیں