“صفائی”

قالین کی صفائی مشکل ہوئی تو میاں سے بصد اصرار ویکیوم کلینر خریدوایا گیا۔ تاکہ قالین میں چھپی گرد و غبار کے ساتھ باریک باریک ذرات بھی نکل سکیں جو جھاڑو یا برش سے صفائی میں رہ جاتے تھے۔ ویکیوم آ گیا قالین کی صفائی ہو گئی۔ ویکیوم میں دوسرا آپشن تھا کہ فرش کی صفائی بھی کر سکتا تھا۔ اب بجائے الگ سے جھاڑو پھیرنے کے ویکیوم سے ہی صفائی کا سوچا۔ گھر صاف ہو گیا مگر کچھ کمی کا احساس ہونے لگا۔ فرش پر کسی قسم کچرا نا تھا دھول مٹی بھی صاف ہو چکی تھی پھر پوچا لگا کر مزید صاف بھی کیا جا چکا تھا مگر کیا کمی تھی جو محسوس ہو رہی رھی۔

سوچتے سوچتے سرا ہاتھ آ ہی گیا۔ ہوتا یوں ہے کہ جب ہم برش یا جھاڑو سے صفائی کرتے ہیں تو قدم قدم آگے بڑھتے جاتے کوڑا بڑھتا جاتا اور زیادہ سےزیادہ نظر آتا ہے۔ اتنا سارا کچرا نکل آیا پھر اسے اٹھا کر کوڑے دان میں ڈالا جاتا ہے بعض دفعہ جب تفصیلی صفائی ہوتی ہے تو اچھا خاصا کوڑا نکل آتا ہے اور کوڑے دان بھی بھر جاتا ہے۔اور پھر پیچھے مڑ کر دیکھو تو گھر صاف محسوس ہوتا ہے۔ایک تسلی ہوتی ہے کہ خوب کام کیا ہے۔

جبکہ جب ہم ویکیوم کلینر سے صفائی کرتے ہیں تو وہ کچرا/ مٹی کو وہیں کھینچ لیتا ہے قدم قدم آگے پڑھتے جاو کچرا ڈھول مٹی غائب ہوتا جاتا ہے اور اس کا شور بھی بہت ہوتا ہے۔ وہ کچرا کا ڈھیر جمع نہیں ہونے دیتا ۔ اس کا کوڑے دان بھی آنکھوں سے اوجھل ہوتا ہے تو اندازہ ہو نہین پاتا کہ کتنا کچرا نکلا ہے۔ جب کبھی وہ بکس خالی کرنا ہو تبھی پتا چلتا ہے کہ کتنا کوڑا اس مشین نے اپنے اندر چھپا رکھا تھا۔ تب جا کر وہ کمی جو محسوس ہو رہی تھی اس کی اصل جان پائی۔ پھر سوچا کہ ایسا کیوں ہوا؟ تو اس کی بھی وجہ ہے

ہم وہ لوگ ہیں جو غموں کو دکھوں کو جتنا زیادہ بڑا دیکھتے ہیں تب محسوس ہوتا ہے یہ دکھ ہے۔ چھوٹے ان دیکھے زخم چاہے زبانی کلامی ہوں یا جسمانی ہوں محسوس ہی نہیں کرتے۔ اور جب وہ زخم حد سے بڑھ جاتے رسنے لگتے تب ہم مداوئے کی تلاش میں نکلتے ہیں۔ چھوٹی پریشانی پر پریشان نہ ہونا اچھی بات ہے مگر پانی سر سے گزرنے کا بھی انتظار نہیں کرنا چاہیئے۔ بگاڑ کو اگر پہلے مرحلے میں ہی درست کر لیا جائے تو اچھا ہے۔ یہ ہماری عادت ہو گئی ہے کہ دوسروں سے گلے شکوے پال پال کر بڑے کرتے جاتے ہیں۔ اسی وقت کہہ سن لینے کی بجائے ایک ملاقات کے گلے اگلی ملاقات کے لئے سنبھال رکھتے ہیں۔ جب وہ خوب زیادہ جمع ہو جائیں تو بیان کرتے ہیں۔ جس سے رشتے کٹتے چلے جاتے ہیں۔

ہم ملاقاتوں میں کچوکے لگاتے رہتے دوسروں کو اور احساس ہی نہیں ہوتا۔ یہ شاید ہماری سوچ بن گئی ہے کوڑے کو جمع کرتے جانا۔ ہمارے معاشرے میں رویوں میں کس قدر گند بڑھ گیا ہے کاش کہ اس کا بھی کوئی ویکیوم کلینر ہوتا جو شور مچاتا ہوا اس گند کو صاف کر دیتا۔ برموقعہ و بر محل۔

جواب چھوڑ دیں