مون سون کی بارشیں کیسے بنتی ہیں؟

مون سون ہواؤں، بادلوں اور بارشوں کا ایک سلسلہ ہے۔ یہ موسم گرما میں جنوبی ایشیا، جنوب مشرقی ایشیا اور مشرقی ایشیا میں بارشوں کا سبب بنتا ہے۔ اپریل اور مئی کے مہینوں میں افریقا کےمشرقی ساحلوں کے قریب خط استوا کے پاس بحر ہند کے اوپر گرمی کی وجہ سے بخارات بننے کا عمل ہوتا ہے یہ بخارات بادلوں کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ اور مشرق کا رخ اختیار کرتے ہیں۔ جون کے پہلے ہفتے میں یہ سری لنکا اور جنوبی بھارت پہنچتے ہیں اور پھر مشرق کی طرف نکل جاتے ہیں۔ ان کا کچھہ حصہ بھارت کے اوپر برستا ہوا سلسلہ کوہ ہمالیہ سے آ ٹکراتا ہے۔ بادلوں کا کچھہ حصہ شمال مغرب کی طرف پاکستان کا رخ کرتا ہے اور 15 جولائی کو مون سون کے بادل لاہور پہنچتے ہیں۔ 15 جولائی کو پاکستان میں ساون کی پہلی تاریخ ہوتی ہے۔

مون سون کی بارشیں بر صغیر کے لیے رحمت ہیں کیونکہ یہ یہاں کی زراعت اور پانی کے ذخیرے کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں ،مون سون کی تیز بارشیں سیلاب کا سبب بنتی ہیں اور ان کی کمی قحط سالی لاتی ہیں ۔ ان کی پیشگوئ ساینسی پیمانے پر پہلے ہی سے ممکن ہے تو ضروری ہے کہ اس کی مناسبت سے ان کے لیے حکمت عملی تیار کی جاۓ۔ تاکہ زیادہ بارشوں میں سیلاب کے خطرے سے نمٹا جاسکےاور کم بارشوں کی وجہ سے قحط سالی کے نقصان کو کم سے کم کیا جاسکے۔ دونوں صورتوں میں سب سے زیادہ نقصان کسانوں کو ہوتا ہے۔ بہتر ہے کہ حکومت کم پریمیم کی بنیاد پر زرعی انشورنس کا نظام لاۓ تاکہ کسانوں کے نقصان کا ازالہ ہوسکے۔

دوسری طرف شہروں میں بارش کے پانی کے نکاس کے نظام کو پورا سال جاری رکھا جاۓ اور بارش کے پانی کی گزر گاہوں کو صاف ستھرا اور ان کے اطراف درخت لگا کر خوبصورت بنایا جاۓ۔شہرمیں بارش کی چھوٹی گزرگاہوں پر ڈھکن لگاے جایئں ۔ گندے پانی اور بارش کے پانی کے نکاس کا انتظام علیحدہ علیحدہ رکھا جاۓ،توشہرکےباسی بھی بارش سےلطف اندوز ہوسکتے ہیں۔۔

ان بارشوں کا زیادہ حصہ بھارت میں برستا ہے جس کی وجہ سے وہاں کے دریا اور برساتی نالے سیلاب کی صورت اختیار کر جاتے ہیں ۔ اور یہ سیلاب بالاخر پاکستان کا رخ کرتا ہے۔ اور سندھ میں داخل ہوتے وقت تک تقریباً ایک مہینہ لیتا ہے ۔ اس لیے  ہم اس کو بھارت کی آبی دہشت گردی کہنے کے بجاۓاس سے نمٹنےکی حکمت عملی بنایئں تاکہ کم سےکم نقصان اور زیادہ سےزیادہ فائدہ اٹھایا جاسکے۔ ہزاروں انسانی جانوں کےضائع ہونےاورلاکھون ایکڑ زرعی زمین کےنقصان کے باوجود ہم الزام تراشی سےباہرنکل کر ایسے عملی اقدام کیوں نہیں اٹھاتے جس سے قوم کو فائدہ ہو ؟

جواب چھوڑ دیں