ایاصوفیہ کا خوف کیوں؟ 

ایاصوفیہ کی تاریخی عمارت ماضی کی طاقتوں اور تہذیبوں کا شاہکار ہے یہ عمارت بزنطینی سلطنت کے ایک بادشاہ نے 532 میں تعمیر کروائی اور پھر اس کو ایک چرچ میں تبدیل کیا گیا اس کے بعد سلطنت عثمانیہ کا دور آیا اور اس عمارت کو مسجد میں تبدیل کر دیا گیا۔ سلطنت عثمانیہ کا دور تیرہویں صدی سے لیکر پہلی جنگ عظیم تک رہا اور یہ تقریبا چھ سو 22 سال پر محیط ہے پہلی جنگ عظیم کے فاتح طاقتیں فرانس اور برطانیہ نے سلطنت عثمانیہ کو ختم کرنے کے لیے معاہدہ لوزان کے معاہدے کو بروئے کار لایااور ایک سیکولر ترکی کی بنیاد رکھی جس کے تحت اس عمارت کو میوزیم میں تبدیل کیا گیا یہ عمارت 1922 لیکر سن دو ہزار بیس تک ایک تاریخی عمارت کے ساتھ ساتھ ایک سیاحوں کے لیے بھی ایک تفریح گاہ کا مرکز بنی رہی۔

حال ہی میں ترکی کی ایک عدالت نے اسکی اصلی اسٹیٹس کو برقرار رکھتے ہوئے اس کو دوبارہ مسجد میں تبدیل کرنے کا حکم دیا مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دنیا کے ایوانوں میں اتنی ہلچل کیوں مچی؟اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کے لیے آپ کو سلطنت عثمانیہ کے بانی کی تاریخ کو پڑھنا ضروری ہوگا تاریخ کے اوراق بتاتے ہیں کہ ترکوں کا ایک مشہور کای قبیلا یہاں آکر آباد ہوا اور اس نے آہستہ آہستہ ایمان کے زور پر مختلف علاقوں پر قبضہ کرنا شروع  کیا آہستہ آہستہ مختلف علاقوں پر قبضہ کرتے کرتے آخر کار بازنطینی حکمرانوں کو شکست دے کر قسطنطنیہ پر قبضہ کر کے اس عمارت کو مسجد میں تبدیل کیا۔تیرھویں اور چودھویں صدی میں سلطنت عثمانیہ ایشیاء کے کچھ علاقوں اور جنوبی یورپ کے علاوہ افریقہ کے کافی ممالک سلطنت عثمانیہ کے حصے میں آ گئے ۔

چھ سو سال کے عرصے میں آخرکار سلطنت عثمانیہ کو شکست پہلی جنگ عظیم کے بعد ہوئی اور یوں سلطنت عثمانیہ کے ٹکڑے ٹکڑے ہوئے اور کئی ممالک مھرض موجود میں آئے،مگر سمجھ نہیں آتی کہ آج کل کی اتنی طاقتور سلطنت بھی سلطنت عثمانیہ سے اتنے خوفزدہ کیوں ہیں؟ اس کی وجہ مسلمانوں کے اندر ایک بہت بڑی طاقت ہے اور وہ ایمان کی طاقت ھے۔یہ ایمان کی طاقت ھی تھی کہ ایک چھوٹے سے ایک اکائ قبیلے نے اتنی بڑی سلطنت کی بنیاد رکھی اور وہ دنیا کی تاریخ کی ایک بہت بڑی اسلامی سلطنت کے نام سے جانی جاتی ہے

لیکن ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا صوفیا کی عمارت سے اتنا خوف کیوں ہے ایا صوفیہ کو مسجد میں تبدیل کرنا دراصل مسلمانوں کے ایک سیاسی سوچ کی عکاسی ہے۔ایک ایسی سوچ جس نے تیرھویں چودھویں صدی میں دنیا کے مختلف علاقوں پر قبضہ کیا اور اسلامی سلطنت کی بنیاد رکھی بقول علامہ اقبال کے کافر ہے تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسہ مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی ۔دنیا کے غیر مسلموں کو اس بات کا خدشہ ہے کہ یہ مسلمان دوبارہ اپنے جذبہ ایمانی کے تحت ہم پر قابض نہ ہو جائیںاور یہی آیا صوفیہ کو مسجد میں تبدیل کرنا ہی اسی سوچ کی عکاسی کرتی ہے ۔

ایا صوفیہ کو مسجد میں تبدیل کرنا دراصل ایک سوچ ہے جس کے تحت دنیا کے مختلف ایوانوں میں ایک حد تک خوف کی کیفیت طاری ہوگئی ہے اور وہ سلطنت عثمانیہ کی بحالی کا راستہ روکنے کے لیے ہر طرح کے حربے استعمال کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔یہ بات معلوم ہونی چاہیے کہ ترک قوم ایک بہت بہادر اور خددار قوم ہے وہ اپنی تاریخ کو کبھی نہیں بھولتی اور وہ اس تاریخ کے تحت ہمیشہ آگے بڑھنے کی جستجو کریں گے اور اسی خدشے کے تحت دنیا میں بے چینی ھے۔

جب 1922 میں سلطنت عثمانیہ کے ٹکڑے ٹکڑے کیے گئے تھے اور ان میں سے کافی سارے مسلمان ممالک کا بھی ہاتھ تھا اسی طرح اب بھی کسی حربے کے تحت مسلمانوں کو مسلمانوں کے ساتھ لڑانے کی سازش تیار کی جا رہی ہے ایسی بڑی طاقتوں کے لئے ایاصوفیہ بڑی طاقتوں کے لیے ایک الارم بھی ہے اور وہ اپنے ماضی کو یاد رکھتے ہوئے سلطنت عثمانیہ دوبارہ بحال ضرور کریں گی اور وہ اس کوشش میں ابھی سے اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔لہذا ہمیں یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ آیا صوفیہ ایک مسجد کا نام نہیں بلکہ مستقبل کے ایک منصوبہ بندی کا نام ھے جو ترک مسلمانوں کی سوچ میں پایا جاتا ھے ۔غیر مسلم طاقتوں کا خوف بجا بھی ہے کیوں کہ ترک دوبارہ اپنی علاقوں کو اپنے قبضہ کرنے کی کوشش میں بہت بڑی جنگ کا آغاز بھی کر سکتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں