ہم ناکام قوم کیوں ہیں 

یوں تو برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کی ناکامی کی وجوہات کئ سو سالوں پر محیط ہے اور ان وجوہات کا تدارک بھی ایک دم نہیں کیا جاسکتا قیام پاکستان سے لے کر اب تک اگر دیکھا جائے تو ان وجوہات کا تدارک بالکل بھی نہی  ہوا ہے اور پاکستانی قوم کی معاشرتی ترقی نہ ہونے کے برابر ہے اور پاکستانی قوم ادھر کی ادھر ھی ہے بلکہ کئی شعبوں میں پاکستانی قوم 1947 کے مقابلے میں بھی ابتر حالت میں کھڑی ہے زراعت کے شعبے میں ترقی بہت کم ہوئی ہے اور اسی طرح نیو جاب کے مواقع بھی بہت کم میسر آئے ہیں انڈسٹری نہ ہونے کے برابر ہے ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اگر ہم نے علیحدہ ملک کے قیام کا مطالبہ کیا تھا اور علیحدہ ملک قائم بھی کرلیا تھا تو ایسا نظام وضع کرنا چاہیے تھا کہ ملک کے ہر شہری کو برابر حقوق ملتے  اور ملک کا نظام اسلامی اصولوں کے مطابق چلتا مگر بدقسمتی سے ایسا نہیں ہوا انگریزوں کے وہ ایجنٹ جو متحدہ ہندوستان کے وقت ملک کو چلا رہے تھے وہیں کسی نہ کسی صورت میں دوبارہ اقتدار پر قابض ہوگئےوڈیرے ،سرمایہ دار طبقہ اور غداران وطن کا یہ ٹولہ ایک دفعہ پھر ملک کی معیشت اور ہر نظام پر قابض ہو گیا

 اس طرح جیسے ہی یہ ٹولہ اپنے قدم مضبوط جماتا گیا اس نے ساتھ ہی سامراجی نظام کے کارندوں کو بھی ملک میں قبضہ کرنے کی اجازت دے دی اور یوں ملک ایک قومی اور بین الاقوامی لٹیروں کا کی آماجگاہ بن گیا اور یہ کارندے کبھی فوجی آمروں اور کبھی سول آمروں کے ساتھ مل کر ملک کو  دونوں ہاتھوں سے لوٹتے رہے  اور اس طرح یہ کارندے کرتے کرتے کبھی فوجی آمروں اور کبھی سول لٹیروں کے ساتھ مل کر یہ کھیل تماشہ کرتے  تہتر سال تک کرتےرہے آہستہ آہستہ اس ملک کی ترقی کے نام پر غیر ملکی بینکوں سے قرضے لے جاتے رہے جو وہ خود ہڑپ کرتے رہے اور اس طرح عوام غریب سے غریب تر ہوتی گئی۔

برصغیر پاک و ہند کے لوگوں کے سب سے بڑی پرابلم یہ ہے کہ یہ لوگ نہ صرف شخصیت پسند ہیں بلکہ یہ شخصیت پرست بھی ہیں اور  اس طرح کے لوگوں کو بیوقوف بنانا بہت آسان ہوتا ہے اور ان لوگوں کی شخصیت پرستی اور شخصیت پسندی کا یہ عالم ہوتا ہے کہ یہ اپنے مفادات کو چھوڑ کر دوسری شخصیتوں پر مر مٹنے کو تیار ہو جاتے ہیں۔

 صدی کا یہ دور ہے لیکن آج بھی اگر آپ انڈیا اور پاکستان کے لوگوں سے بات کریں تو وہ بڑے لوگوں اور دولت مند اور اثرو رسوخ والے لوگوں سے اتنے متاثر ہوتے ہیں کہ ان کے لیے اپنی جان بھی دینے کو تیار ہوتے ہیں ان کو اپنے مسائل اور اپنے حقوق کی کوئی فکر نہیں ہوتی اور ان کو یہ بھی پتہ نہیں ہوتا کہ یہ لوگ ان کے حقوق سلب کر رہے ہیں اگر میں پاکستان کی ناکامی کی بات کرو تاکیسویںو میں یہ سمجھتا ہوں کہ پاکستان کے اشرافیہ اور پاکستان کی بے وقوف عوام

اس جرم میں برابر کے شریک ہیں عوام کا تو یہ حال ہے کہ ان کو اپنی استطاعت کے مطابق جہاں بھی جتنا ملتا ہے وہ ملک کو لوٹنے سے باز نہہں آتے۔میں یہ سمجھتا ہوں کہ ملک کی معاشی ابتری کے پیچھے  اس ملک کا ہر شہری بھی اتنا ہی ذمہ دار ہے جتنا کہ یہ اشرافیہ اس بات کو بڑے افسوس سے کہا جاسکتا ہے کہ ملک کی اکانومی زیادہ تر رشوت ستانی اور حرام کے پیسوں سے چلتی ہے

جب ملک کے رکھوالے ہی ملک کے لٹیرے بن جائیں تو ایسی ایسی قوم ہمیشہ ابتری کی طرف آ جاتی ہے اور ہمیشہ کمزور ترین قوم تصور کی جاتی ہے ہمارے پاکستان کے لوگوں کو اس بات کی سمجھ آ جانی چاہیے کہ یہ طاقتور اشرافیہ کبھی بھی آپ کو آپ کے اپنے حقوق نہیں دے گا  کیونکہ پاکستانی عوام کو حقوق دینا ان کی اپنی سیاسی موت ہے اور یہ کبھی دوبارہ اقتدار میں نہیں آ سکتے

اس لئے پاکستانی قوم کو شخصیت پرستی اور شخصیت پسندی سے نکل کر اپنے حقوق کا دفاع کرنا چاہیے اور ان کو پتہ ہونا چاہئے کہ ان کے حقوق کیا ہیں اور نہ صرف پتہ ہونا چاہیے بلکہ ان کے حقوق کے دفاع کے لیے ایک طویل جنگ کا آغاز بھی کرنا چاہیے تھا تاکہ ملک ترقی کی راستے پر آ جاتا۔

 بہر حال اس بات کی امید  تو کی جاسکتی کیونکہ امید کے سارے دنیا قائم ہے اور خوابوں کے دیکھنے کا کچھ نہیں لگتا. اور ہر انسان کو خواب بھی دیکھنا چاہیے کیونکہ خوابوں کی تعبیر اسی وقت ہی ممکن ہے جب آپ خواب دیکھیں گے۔

جواب چھوڑ دیں