مسئلہ کشمیر، بدلتے عالمی منظر نامے میں۔۔۔‎

کشمیر پاکستان کی شہہ رگ ہے اور کوئی با غیرت قوم اپنی شہہ رگ دشمن کی تلوار کے نیچے نہیں چھوڑ سکتی

یہ الفاظ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے کشمیر کے حوالے سے اس وقت ادا کیئے جب پاکستان کی نوزائیدہ ریاست چہار جانب سے مسائل کا شکار تھی۔ مگر چونکہ قائد اعظم کی بصیرت افروز نگاہ اس خطے کی اہمیت اور پاکستان سے اس کے تعلق سے بخوبی آگاہ تھی لہٰذا پاکستان نے اہل کشمیر کو ان مشکل حالات میں بھی تنہا نہ چھوڑا۔ بعد کے ادوار میں بھی اتار چڑھاو کے باوجود کشمیر کاز ہمیشہ سے پاکستان کی خارجہ پالیسی کا جزو لانفیک رہا۔ اگرچہ پاکستان اپنے قیام کے بعد سے ہی ایسے ہوس پرست اور ذاتی مفادات کے اسیر سیاست دانوں کے ہاتھوں میں رہا جن کے لئیے ملکی وقار، عزت اور غیرت بے معنی الفاظ تھے، مگر اس کے باوجود کشمیر پر متفقہ اور دوٹوک موقف چونکہ خود پاکستان کے اپنے وجود کی بقا کا ضامن ہے، اس لیئے کشمیر پر سودے بازی کی ہمت کسی حکمران کی نہ ہوئی۔

بد قسمتی سے مشرف کے سیاہ آمرانہ دور میں نائن الیون کے بعد خارجہ پالیسی میں ایسا یوٹرن لیا گیا جس نے ملک کی نظریاتی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا۔ کشمیر کے معاملے پر بھی مشرف دور میں پسپائی اختیار کی گئی اور سیاسی سفارتی و اخلاقی ہر محاذ پر کشمیریوں کا ساتھ دینے کے اس وعدہ سے منہ موڑ لیا گیا جو ازل سے پاکستانی خارجہ پالیسی کا حصہ تھا۔ مشرف کے بعد نواز اور زرداری دور میں بھی “مشرفانہ” پالیسیوں کا تسلسل جاری رکھا گیا جس کے باعث مسئلہ کشمیر سرد خانے کی نذر ہوتا چلا گیا۔ حالانکہ انہی ادوار میں برہان مظفر وانی کی شہادت سمیت گاہے بگاہے ایسے کئی واقعات رونما ہوئے جن کو بنیاد بنا کر سفارتی محاذ پر پاکستان کشمیر کو فلیش پوائنٹ بنا سکتا تھا مگر پاکستانی قیادت کی عدم دلچسپی اور دہشتگردی کے خلاف نام نہاد جنگ میں شرکت کے باعث ایسا نہ ہو سکا۔

پی ٹی آئی کی موجودہ حکومت تبدیلی کا نعرہ لگا کر اقتدار میں آئی۔ پنجاب، خیبر پختونخواہ ، سندھ و بلوچستان کے شہری علاقوں میں عوام کی اکثریت نے پی ٹی آئی کو تبدیلی کی بنیاد پر ووٹ دئیے۔ تبدیلی کے نعرے کی پذیرائی سے یہ بات ثابت ہوئی کہ عوام کی اکثریت اس بوسیدہ نظام اور قومی وقار سے عاری پالیسیوں سے عاجز ہے اور نہ صرف اندرونی محاذ پر بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی ایک با غیرت قوم کے طور پر ابھرنا اور جینا چاہتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب عمران خان نے جنرل اسمبلی کے اجلاس میں نہ صرف کشمیر ایشو کو دبنگ انداز میں دنیا کے سامنے پیش کیا بلکہ دہشتگردی کے خلاف پاکستان کے کردار اور قربانیوں کا ذکر کرتے ہوئے دنیاسے یہ مطالبہ کیا کہ پاکستان کی قربانیوں کا اعتراف کیا جائے۔ تب اپوزیشن سمیت تمام سیاسی جماعتوں اور دیگر حلقوں کی طرف سے جناب عمران خان کی اس تقریر کو بے تحاشا سراہا گیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان کی یہ تقریر پاکستان کی خارجہ پالیسی کے لئیے ایک تاریخی لمحہ تھا جب مشرف دور سے اختیار کی جانے والی بے حمیت اور معذرت خواہانہ پالیسی کا خاتمہ ہوا اور پہلی دفعہ پاکستان کی طرف سے دنیا کے سامنے اپنا موقف دبنگ اور دو ٹوک انداز میں پیش کیا گیا۔ چنانچہ قوم نے اس تقریر کے بعد بجا طور پر حکومت سے یہ توقعات وابستہ کیں کہ اب سفارتی اور سیاسی محاذ پر بین الاقوامی سطح پر کشمیر ایشو پر تیزی سے پیش قدمی کی جائے گی۔ جیسا کہ خود عمران خان نے یہ اعلان کئی دفعہ کیا کہ وہ خود کشمیر کے سفیر کے طور پر پوری دنیا میں کشمیر کا مقدمہ لڑیں گے۔

مگر بد قسمتی سے ایک سال کا عرصہ گزر جانے کے با وجود وادی کشمیر کی اندرونی صورتحال جوں کی توں ہے۔ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر کے وادی کو بدترین محاصرے میں جکڑ کے اور انسانی حقوق کے حوالے سے تمام تر بین الاقوامی قوانین کو روند کرمودی سرکار پوری دنیا سے تجارتی و سیاسی تعلقات کے فروغ میں مصروف ہے۔

بظاہر پاکستان کی طرف سے یہ پالیسی اپنائی گئی تھی کہ عسکری مہم جوئی چونکہ خطے کے مفاد کے بر عکس ہے ،خاص طور پر ایسے تناظر میں جبکہ پاکستان اور بھارت دونوں ایٹمی قوتیں ہیں، لہٰذا سفارتی و ابلاغی ذرائع استعمال کرتے ہوئے بھارت کو بین الاقوامی دباو کے ذریعے کشمیر میں لا ک ڈاون کے خاتمے اور بین الاقوامی میڈیا اور مبصرین کی رسائی پر مجبور کیا جائے گا۔ پاکستان اپنی اس حکمت عملی مہں کس حد تک کامیاب ہوا؟ یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں۔

5 اگست کو پاکستان میں یوم یکجہتی کشمیر کے موقع پر وزیر اعظم عمران خان نے کشمیر ایشو پر واشنگٹن پوسٹ میں شائع شدہ اپنے مضمون ، چند پارلیمینٹیرینز اور ایک آدھ سربراہ مملکتوں کے کشمیر کی صورتحال پر تشویشی بیانات جاری کرنے کو اپنی سفارتی کامیابی قرار دیا۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اس کامیابی کو کامیابی سمجھنا اور باور کرانا خود کامیابی کی توہین ہے۔ پاکستان کی جانب سے عالمی سیاسی بساط پر بھارت کو اب تک نہ تو کوئی کاری ضرب لگائی جا سکی ہے اور نہ ہی کشمیر میں بھارت کے ریاستی مظالم کو بنیاد بنا کر اسے بین الاقوامی برادری میں تنہا کیا جا سکا ہے۔ تاحال مودی سرکار کشمیر کے مسئلے پر اپنے موقف میں کوئی لچک دکھانے پر راضی نہیں ہے۔ بلکہ اس کے بر عکس اس امر کے واضح امکانات موجود ہیں کہ امریکہ، اسرائیل اور اب عرب ممالک کی واضح پشت پناہی کے بل بوتے پر بھارت کشمیر کاز پر مزید پیش قدمی اختیار کر سکتا ہے۔

حال ہی میں یو اے ای اور اسرائیل کے درمیان سفارتی تعلقات کی بحالی اور اس کے بعد دیگر عرب ممالک کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کیئے جانے کے امکان نے دنیا کو دو واضح بلاکس میں تقسیم کر دیا ہے۔ ایک جانب امریکہ اسرائیل اور عرب ممالک ہیں اور دوسری جانب چین ترکی ملائیشیا اور ایران ہیں۔ پاکستان کی ترجیح یقیناً چین اور ترکی کی طرف ہو گی مگر مسئلہ کشمیر کے تناظر میں اصل سوال یہ ہے کہ بھارت کو عالمی سطح پر تنہا کرنے اور سفارتی محاذ پر کشمیر کا مقدمہ لڑنے کی حکمت عملی کو کیسے آگے بڑھایا جا سکتا ہے جبکہ بھارت کو امریکہ اسرائیل اور عرب ممالک کی مکمل حمایت حاصل ہے؟

کیا اب وقت نہیں آگیا ہے کہ پاکستان مسئلہ کشمیر پر دنیا کا ضمیر جگانے کی لا حاصل سعی و جدوجہد ترک کر کے اپنے دوست ممالک کی مدد سے کشمیر کاز پر پیش قدمی کرے؟ اقوام متحدہ اور عالمی شعبدہ بازوں کے در سے امیدیں لگا کر رکھنا احمقوں کی جنت میں رہنے کے مترادف ہے۔ یہ حقیقت بچہ بچہ جانتا ہے کہ انسانی حقوق اور انصاف کا راگ الاپنے والی عالمی طاقتیں محض اپنے مفادات کی پجاری ہیں۔ ان تمام طاقتوں اور اداروں کو نہ تو مسئلہ کشمیر سمیت دنیا کےدیگر سلگتے مسائل سے کوئی دلچسپی ہے اور نہ ہی پاکستان کی حمایت کے نتیجے میں کسی معاشی یا سیاسی مفاد کا حصول ان کو نظر آرہا ہے۔ محض انصاف اور حقوق کی بنیاد پر کوئی عالمی ادارہ یا ریاست پاکستان اور کشمیریوں کے ساتھ کھڑی نہیں ہو گی۔ یہ ستر سال کے طویل عرصے کی لاحاصل مساعی کا تلخ تجربہ اور حقیقت ہے۔ یہ بات نوشتہ دیوار ہے کہ پاکستان کو یہ جنگ اپنے زور بازو پر لڑنا ہو گی۔ اگرمقتدر حلقے واقعتاً کشمیر کو شہہ رگ تسلیم کرتے ہیں تو پھر نمائشی حرکتوں اور خالی بیانات کے بجائے عملی اور ٹھوس اقدامات کی طرف رجوع کریں وگرنہ قوم کو بہت عرصے لالی پاپ دے کر نہیں بہلایا جا سکتا۔

جواب چھوڑ دیں