بائیس مربع میل کی عظیم الشان سلطنت کے بے مثل خلیفہ

وہ جو اللہ کے محبوب کے ذریعے اللہ سے خاص کر طلب کیے گئے۔  جو فاروق کے لقب سے نوازے گئے۔

شیطان جن کو دیکھتا تو راستہ چھوڑ دیتا۔ جن کے بارے میں آقائے دو جہاں ؐ نے فرمایا کہ میرے بعد کوئ نبی ہوتا تو وہ عمر ہوتا۔

جنھیں ان کی زندگی میں جنت کی بشارت دی گئ۔ جن کے زبان سے جاری ہونے والے کلمہ حق کو اللہ تعالی قرآن کریم کی زینت بنادیتے۔

جنگ کے موقع پر گھر کا آدھا سامان لے آتے ہیں۔ جن کے ایمان لانے کے بعد خانہ کعبہ میں سر عام نماز ادا کی گئ۔

دیکھیے وہ کیا فرما رہے ہیں؟  تلوار نیام سے باہر ہے اور للکار رہے ہیں ظالموں کو۔

 

تم میں سے کوئ اپنی بیوی کو بیوہ اور بچوں کو یتیم دیکھنا چاہتا ہے تو وہ مکے سے باہر آکر میرا راستہ روک لے۔پھر سب نے دیکھا کہ ہجرت علی الاعلان ہوئ۔

اپنی بہن اور بہنوئ کو اسلام کے راستے سے روکنے گئے تھے مگر چونکہ منافق نہیں تھے حق کو پہچانتے تھے اس لیے حق سنا تو ایمان لے آئے۔

حضرت ابو بکر صدیق کی وصیت کے مطابق آپ دوسرے خلیفہ ہیں ساڑھے 22 لاکھ مربع میل کی سلطنت کے مالک ہیں۔

لباس سادہ، غذا سادہ ، تخت ہے نہ تاج ہے ،بس ایک ہی آرزو ہے کہ رب راضی رہے۔

 

عراق، ایران، مصر اور شام میں اسلام کا پھریرا لہرایا۔ جنھوں نے انصاف کے لیے عدالتی نظام متعارف کرایا۔

امن و امان کے لیے دفاع کا محکمہ قائم کیا اہم مراکز پر فوجی چھاونیاں قائم کیں۔

اور بیت المال کا نظام بھی انھوں ہی نے متعارف کرایا۔ نہری نظام متعارف کرایا۔

جیل خانے کا نظام متعارف کرایا۔ اور ایک بہترین نظام تعلیم بھی قائم کیا۔

غریبوں کے گھر راشن اپنے کندھے پر رکھ کر لے جاتے۔

تاریکی میں میں علاقے کا معائنہ کرتے کوئ پریشان حال تو نہیں کوئ بھوکا تو نہیں کہ قول مشہور ہے کہ دریائے فرات کے کنارے ایک کتا بھی بھوکا مر گیا تو حساب مجھ سے لیا جائے گا۔

 

متقی اتنے کہ شدید تکلیف کے عالم میں ہیں ایک آدمی عیادت کو آتا ہے تو اس کا ٹخنوں سے نیچے لٹکا ہوا تہبند دیکھ کر تنبیہ کرتے ہیں کہ اونچا کرے۔

کون تھے وہ ؟ …وہ عمر بن خطاب تھے۔ جنھوں نے کبھی اپنی حمیت کا سودا نہ کیا ۔ نہ جھکے….نہ بکے۔

نہ دین اور شرع میں کسی کے کہنے پر کوئ جھول آنے دیا۔

وہ بنیان مرصوص تھے جی ہاں وہ عمر فاروق رضی اللہ عنہ تھے۔

جو واقعہ فیل کے تیرہ سال بعد 584ء میں پیدا ہوئے جنھیں 27 ذی الحجہ 23 ہجری بروز بدھ فجر کی نماز کے دوران مسجد میں چھپے ہوئے ایک بدبخت مجوسی ابو لولوفیروز نے خنجر سے وار کرکے زخمی کردیا۔

 

یکم محرم 24 ہجری کو وہ عظیم خلیفہ عظیم عمر رضہ ساڑھے دس سال خلیفہ رہنے کے بعد شہادت شہید ہوگئے کہ ان کے زخم شدید تھے اور ان کا بدن دیدار یار سے ملاقات کی خواہش میں بے تاب تھا۔

تا قیامت حضرت عمر رضہ کے کارنامے یاد رکھنے کے قابل ہیں کہ محمد صہ کی سپاہ میں رہتی دنیا تک کے لیے اگر کوئ عالمی اصلاح کار کہلانے کے قابل ہے تو وہ صرف عمر رضہ ہیں کہ ان کے قول مبارک پر خود اللہ تعالی مہر تصدیق ثبت کرتے تھے۔

جواب چھوڑ دیں