فاروقِ اعظم رضی اللہ تعالی عنہ اور رعایا

اللہ سبحان وتعالی نے اپنی تمام مخلوقات میں حضرت انسان کو فضیلت بخشی ہیں اور اسے اشرف المخلوقات بنایا ہے اسی طرح انسانوں میں بھی مختلف درجات بنائے اور ایک دوسرے پر فضیلت بخشی ہے انسانوں میں سب سے بلند مرتبہ انبیاء کرام علیہم السلام کا ہے ان کے بعد  صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے درجات ہیں یہ وہ تمام با مشرف حضرات ہیں جن کے لیے اللہ نے اپنی رضا کا اعلامن کردیا ہے مگر آج ہم بلخصوص  جن کی بات کر رہے ہیں وہ مرادنبی ﷺ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ وہ خوش نصیب صحابی ہے جن کو حضوﷺ کی دعا کی بدولت سےایمان ملا حضرت عمر کی شجاعت و ہمت کی نظیر نہیں ملتی آپ ہی کی بدولت اسلام  مکہ مکرمہ میں بیت ارقم سے نکل کر حرم آیا اور پھر بعد از خلافت آپ نے بائیس لاکھ مربع میل پر اسلام کے جھنڈے گاڑے۔

آپ جیسا خلیفہ چشم فلک نے آج تک نہیں دیکھا کہ اتنی بڑی خلافت کا حاکم اور اس قدر سادہ زندگی: ایک دفعہ ملک روم کا سفیر مدینہ آیا اور اس نے لوگوں سے دریافت کیا کہ ’’تمہارے خلیفہ کا محل کہاں ہے؟ ‘‘ لوگوں نے کہاکہ’’ ہمارے خلیفہ محل میں نہیں رہتے بلکہ عام سے مکان میں رہتے ہیں ، اس وقت وہ شہر سے باہر کی جانب گئے ہیں تم ان کو دیکھو گئے تو پہچان لوگے، ان کے ایک ہاتھ میں درہ ہوگا، موٹے کھدر کے کپڑے پہن رکھے ہونگے۔ ‘‘ سفیر شہر کے باہر کی جانب چل دیا، کچھ دور جاکر اس نے دیکھا کہ مسلمانوں کے خلیفہ ایک درخت کے نیچے اینٹ پر سر رکھ کر سورہے ہیں، آس پاس کوئی پہرے دار نہیں ہے۔ یہ دیکھ کر اس کی زبان سے بے اختیار یہ الفاظ نکلے’’ آپ  اپنے لوگوں کے سچے خیر خواہ ہیں اسی لیے آپ لوگوں کے دلوں پر حکومت کرتے ہیں اور آپ کو کسی سپاہی اور پہرے دار کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘

آپ ؓ فرماتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں جو عزت اور شان و شوکت عطا کی ہے وہ شاندار کپڑوں اور عالی شان مکانا ت کی وجہ سے نہیں بلکہ اسلام کی وجہ سےعطا کی ہے۔

اپنی رعایا کے ساتھ اتنا مل کر رہتے کہ کوئی بھی ان سے سوال کر سکتا تھا ان کاکوئی وی آئی پی پروٹوکول نہیں تھا جیسا کہ آج کل حکمران سے ملنے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ایک بہت ہی مشہور واقعہ ہے کہ حضرت عمر رات کی تاریکی میں رعایا کا احوال جاننے کے لیے گشت فرما رہے تھے اسی اثناء میں انھیں ایک گھر سے بچوں کے رونے کی آواز آئی استسفار کرنے پر معلوم ہوا کہ بیوہ عورت اپنے یتیم بچوں کو بہلا کر سلا رہی اور ان کے پاس کھانے کو کچھ نہیں  آپ کو یہ منظر اس قدر تکلیف دہ لگا کہ وہ خود بیت المال سے جاکر  ان کے لیے اپنے کاندھے پر آٹے اور ضرورت کی چیزیں ڈھو کر لے کر آئے  اور پھر انھوں نے اس عورت کے بشمول تمام بیوہ عورتوں کا وظیفہ باندھ دیا تھا اس کے علاوہ بچوں کے لیے بھی وظیفہ آپ نے مقرر کیا اور آج حال یہ ہے کہ یورپ اور دیگر ممالک میں قانونِ عمر  ؓ کے نام سے وظائف دیے جاتے ہیں توہی  ان کے طر ز حکومت کو سراہا جاتا ہے۔

آپ رضی اللہ عنہ کی کوشش ہوتی تھی کہ رعایا کے حالات زیادہ سے زیادہ خود معلوم کریں۔ ایک دفعہ سفرِ شام سے واپسی کے دوران راستے میں ایک خیمہ دیکھا، سواری سے اترے، ایک بوڑھی عورت نظر آئی، اس سے پوچھا عمر کا کچھ حال معلوم ہے؟ کہنے لگی: شام سے روانہ ہوچکا ہے مگر خدا اسے پوچھے، مجھے اس کی طرف سے آج تک ایک جبہ بھی نہیں ملا۔ آپ نے کہا: عمر کو اتنی دور کا حال کیسے معلوم ہوسکتا ہے؟ بولی: اگر عمر کو رعایا کے حالات معلوم نہیں تو خلافت کیوں کرتا ہے؟ اس جواب پر آپ پر رقت طاری ہوگئی اور رونے لگے۔ پھر اس عورت کو ضروریات زندگی کی اشیاء بہم پہنچائیں۔

یہی وجہ ہے کہ آج بھی ان کی خلافت کو یاد کیا جاتا ہے یہ آپ کی خلافت کا صرف ایک پہلو کا اجمالی جائزہ ہے درحقیقت آج مدینہ جیسی ریاست کے قیام کے خواہش مند حکمران کو حضرت عمر رضی اللہ تعالی کی سیرت کو اپنانے کی ضرورت ہے۔

جواب چھوڑ دیں