چینی سامراج کی غلام اقوام

دنیا کی بہت سی قومیں کئی صدیوں تک مغربی سامراج کی غلامی میں رہیں، ان مغربی سامراجیوں میں فرانس ،برطانیہ، اسپین اور پرتگال نے کئی ملکوں کو اپنی غلامی میں رکھا۔

اور نہ صرف ان کو جبری غلام بنائے رکھا بلکہ ان کی مال و دولت کو بھی لوٹتے رہے۔ بیسویں صدی کے آغاز میں پہلی جنگ عظیم اور دوسری جنگ عظیم کے بعد یہ سامراجی قوتیں بتدریج کمزور ہوتی گئی اور آہستہ آہستہ یہ یورپ تک ہی سمٹ گئی۔

 دوسری جنگ عظیم کے بعد سوویت یونین اور امریکہ دنیا کی دو سپر باور کے طور پر ابھر کر سامنے آئیں۔ سوویت یونین کے خوف سے یورپ اور امریکہ  نے مل کر بہت سے دفاعی معاہدے کیے اور اس کے نتیجے میں نیٹو کا قیام عمل میں آیا جو کہ خالصتا سوویت یونین کی جارحانہ فوجی اقدام کو روکنے کے لیے قائم کیا گیا تھا۔

پچاس کی دہائی سے لے کر اسی کی دہائی کے آخر تک سوویت یونین اور امریکہ کے درمیان سرد جنگ جاری رہی اور یورپ عملی طور پر دو حصوں میں تقسیم ر ہا،آخر انیس سو نوے کے اوائل میں سوویت یونین کے ٹوٹنے کا عمل شروع ہوا اور سوویت یونین کئ ممالک میں بٹ گیا اوراس طرع سرد جنگ کا خاتمہ ہوگیا، یوں عملی طور پر امریکہ واحد سپر پاور کے طور پر دنیا میں ابھر کر سامنے آیا اور وہ اکیلا ہی اپنی چوہدراہٹ کے ذریعے دنیا پر اپنی تسلط قائم  کرنے میں کامیاب ہوگیا۔

مغربی ماہرین بیسوی صدی کے آخر میں چہ میگوئیاں کرنے لگے کہ آنے والے وقت میں کونسا ملک سپر پاور بن کر امریکہ کے سامنے آ کر کھڑا ہوگا اور  یوں اندازے لگائے جانے لگے ک آیندہ 20 سے 25 سال کے اندر چائنہ اپنی اقتصادی طاقت کے بل بوتے پر اس قابل ہو جائے گا کہ وہ امریکہ کے سامنے آکر کھڑا ہو جائے گا ۔وقت گزرتا گیا اور چائنہ کی ترقی کی رفتار آہستہ آہستہ تیز ہوتی گئی چینی سرمایا کاری ہر ملک اور ہر خطے کے اندر اپنے قدم جمانے لگی دنیا کے ہر خطے کے ہر ملک کے اندر انکی مقامی مارکیٹ میں چائنیز اشیاء بھرنے لگے، چینی اشیاء قدرے سستی ہونے کی وجہ سے ہر ملک کے اندر مشہور ہونے لگیں اور اس طرح آہستہ آہستہ وہ اس ملک کی اکانومی پر چھانے لگی مگر ساتھ ساتھ چائنیز سفارتکاری بھی اپنے رنگ دکھانے لگی اور وہ دنیا کے ہر ملک کے ساتھ اپنے دفاعی معاہدوں میں جڑے رہے اور اقتصادی معاہدوں کی آڑ میں فوجی معاہدے بھی کرنے لگے اور ہر فوجی نقطہ نگاہ سے جو بھی اہمیت کا حامل ملک تھا وہاں پر اپنے فوجی اڈّے بھی قائم کرنا شروع کیے، وقت گزرتا گیا اور اکیسویں صدی کی دوسری دہائی بھی  اختتام پذیر ہوئی اور چین اقتصادی طور پر ہر براعظم پر چھا گیا۔

پاکستان میں بھی سی پیک کے نام پر ایک بہت بڑا منصوبہ شروع کیا گیا جس کی رو سے پاکستان کے اندر سڑکوں کے جال بچھانے کے ساتھ ساتھ وہاں پر لوکل سرمایہ کاری اور گوادر بندرگاہ کو اپنے ذاتی تجارت کے لئے استعمال کرنا بھی شامل تھا۔

 حالیہ انڈیا اور چائنہ کی سرحدی تنازع کے بعد چائنہ کھل کر دنیا کے سامنے آیا اور اپنی سپرپاور کے اسٹیٹس کو قائم کرنے کے لئے اس نے اپنی دنیا کے اندر سارے مہروں کو استعمال کرنا شروع کر دیا آپ نے حال ہی میں بہت ساری ویڈیوز پاکستان کے اندر دیکھی ہو گی جس میں چائنیز لوگوں کی مقامی لوگوں سے لڑائیاں پولیس والوں سے ہاتھا پائی اور دوسرے کئی جرائم بھی منظر عام پر دیکھے ہونگے،اس کے علاوہ چائنیز سرمایہ کاروں کی آمریت پسندانہ حرکتیں افریقہ کے بہت سارے غریب ممالک میں بھی  دیکھی اور سنی گئیں۔

 اس بات سے قطعی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ پیسہ ایک بہت بڑی طاقت ہوتی ہے اورکسی بھی طاقت کے پیچھے پیسہ چلتا ہے دنیا کے اکثر ممالک جو کہیں صدیوں تک مغربی سامراجی قوتوں کے ستائے ہوئے تھے انہوں نے چینی سرمایہ کاری کو غنیمت سمجھتے ہوئے خوشدلی سے  قبول کیا مگر چائنہ بھی ایک نئی سامراجی قوت کے طور پر سامنے آ یا اس وقت کم و بیش چائنہ دنیا کے ہر ملک کے اندر اپنی دھاک بٹھائے ہوئے ہیں اور اپنی سرمایہ کاری کے بل بوتے پر ان کی خارجہ پالیسی کو بھی اپنے کنٹرول میں کر رکھا ہے۔

 آنے والے وقتوں میں ایشیا اور افریقہ کے جو غریب ممالک تھے وہ پہلے ہی مغربی سامراجی قوتوں کے ہاتھوں لٹتے رہے غریب قوموں کو قرضہ دینا اور ان کی قیمتیں اثاثوں کو گروی رکھ کر ان کو کمزور کرنا چین کے ایک بہت بڑےہتھیارکے طور پر سامنے آیا ہے۔

ان سارے عوامل کے نتائج تو آنے والا وقت ثابت کرے گا مگر ایک بات  مسلّم ہے کہ چین مستقبل کے سپر پاور ہونے کے ناطے بہت سارے غریب ممالک کے قیمتی اثاثے پر اپنا قبضہ جما چکا ہے۔

آسمان سے گرا کھجور میں اٹکا کے مصداق  بہت سے غریب اقوام اس وقت چینی سا مراج کے آگے پھنس چکی ہیں اور وہ وصال یار میں نا ادھر کے رہے نہ ادھر کے رہے ایک عجیب مخمصے کا شکار ہو چکے ہیں۔

غریب شخص کی طرح غریب قوموں کا بھی کوئی مستقبل نہیں ہوتا اور وہ ہمیشہ امیر اور سپر پاور کی مرہون منت ہوتی ہیں۔

غریب اقوام اور وہاں کے حکمرانوں کو چاہیے کہ وہ اپنے بل بوتے پر کچھ کریں اور اپنے لوگوں کو مضبوط کریں تاکہ وہ امیر قوم بن کر سامنے آ سکیں، اور اس طرح ان کی قوم سامراجی قوتوں کا شکار نہ ہو۔

جواب چھوڑ دیں