سوچنے کا مقام

نیا سال سب کو مبارک ہو ہماری زندگی کے کتنے ہی ماہ وسال گزر چکے ہیں اور ہمیں اس کااحساس اس وقت ہوتا ہے جب ہم اس کو شمار کرتے ہیں، زندگی ایک بڑی نعمت ہے اور یہ برف کی سی تیزی سے پگھل رہی ہے ۔ اگر ہم سے کوئی ہماری عمر پوچھے تو ہم اسکو آپنی وہ عمر بتاتے ہیں جو گزر چکی ہے لیکن ہماری اصل عمر تو وہ ہے جو اب باقی بچی ہے اور ہم اس سے بے خبر ہیں۔۔۔۔۔۔

سوچنے کا مقام یہ ہے کہ گزر جانے والی عمر کا احتساب کیا جائے کہ آیا ہم نے وہ عمر کن کاموں میں گزاری اور مقصد حیات کس حد تک پورا کیا کیونکہ

حضور صل اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا

 **وہ شخص برباد ہو گیا کہ جسکا اج اسکے کل سے بہتر نہیں* 

اگر ہمارے زیر دست نوکر غلام یا  ماتحت ہمارے ہی دیے ہوئے اختیارات کا استعمال ہمارے حکم کے خلاف کریں تو

 *ہمارا کیا ردعمل ہو گا*

اسی طرح ہمیں رب کائنات نے یہ زندگی جیسی خوبصورت نعمت امانت کے طور پر دی ہے

اب ہمیں مالک کے حکم کے مطابق زندگی گزارنی ہے

اس نے اپنے احکامات قرآن و سنّت کے ذریعے بتا دیے اب ہم ہر کام کو کرنےسے پہلے یہ ضرور چیک کریں کہ کہیں یہ مالک کی نا فرمانی تو نہیں

دنیا میں جس بچہ کی امتحان کی تیاری اچھی ہو اسکے نہ صرف پیپرز اچھے ہوتے ہیں بلکہ آسکو ہی نتیجے کا بھی انتظار ہوتا ہے جبکہ غفلت میں پڑے ہوئے بچے نتیجے سے نہ صرف بھاگتے ہیں بلکہ ڈرتے ہیں

 دنیا امتحان گاہ ہے اور اسکا نتیجہ جنت

اور  *جنت* کی اسی دنیا میں رہ کر فکر  کرنی ہے تاکہ اچھا نتیجہ ہمارا منتظر ہو اور  ہم جنت کو پا سکیں

اب گزشتہ سالوں میں جو غلطی ہم سے ہوچکی توبس اب جلد توبہ کر کے اپنی باقی زندگی کو بہترین مہلت عمل سمجھ کر غنیمت جانیں اور مالک کی اطاعت وفرما برداری میں زندگی گزاریں

 معلوم نہیں کتنی زندگی اب بچی ہے کیونکہ کتنے ہی لوگ ہماری آنکھوں کے سامنے اس سال اپنے سفر آخرت پر روانہ ہو چکے ہیں

خدا سے دعا ہےکہ وہ ہمیں اپنی قائم کردہ حدود کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمارا آج گزشتہ کل سے بہتر ہو…آمین

جواب چھوڑ دیں