دُکھائے دل جو کسی کا

جتنا شکر کیا اس رب عظیم کا کم ہے کتنے مہینوں “کرونا”میں گزرے۔ ہزاروں اموات، ہزار پریشانیاں ، تنگیاں دشواریاں سہتے سہتے اور ممالک کے مقابلے پاکستان پر پھر پھر اللہ کا کرم رہا ۔ سبحان اللہ ۔ لیکن پھر بھی اللہ تعالیٰ نے بہت کرم کیا ۔ کیا کیا نہ حالات بدلے ، مہنگائی ، ٹڈی دل کے حملے ، زلزلے ، سیاست کے پھڈے ۔ جو دلوں میں ابھی تک آگ بھڑکا رہے ہیں ۔ اسی لئے روزانہ محتلف چینل میں فالتو کی بحث و تکرار الزام تراشی بمع فحاشی مسلسل چل رہی ہے بلکہ دو سال سے تو پل رہی ہے اور لوگوں کے اندر ایک طرح کا پرتشدد ماحول خود بخود اترتا جارہا ہے گو یا سلو پوائزنینگ ! اللہ رحم فرمائے ۔

  پھر بھی لوگ جیسے تیسے گزار رہے تھے کہ اچانک دو مرتبہ بارشوں نے تباہی مچائی اگر چہ بارش کیلئے دعا ئیں مانگی گئیں دعائیں رنگ لائیں اور یقینا وہ رحمت ہی ہوتی ہیں ۔ کنویں بھر جاتے ہیں اور نرم زمینیں سیراب ہوجاتی ہیں ، موسم خوشگوار ہوجا تا ہے اور سبزازار درودیوار دھل کر نکھر جاتے ہیں ۔ پانی ہر طرح سے ذخیرہ بھی ہوجاتا ہے جو آگے مختلف صورتوں میں کارِ خیر انجام دیتا ہے چلیں اللہ کا شکر ہے۔ زیادہ تر فائدہ ہوا لیکن کیونکہ ہر چیز کی ضد ہے ۔ کہیں خوشی کہیں غم میں سب سنگ سنگ رحمت اپنی جگہ بے شک رہی اور ہمیشہ رہتی ہے مگر بعض علاقوں میں زحمت بن گئی ۔ جانوں کا مالوں کا گھروں کا چھتوں دکانوں اور کاروباری حضرات کا بے پناہ نقصان ہوا گھروں میں پانی آگیا ۔ سارا سامان برباد ہوگیا ۔ عید کے جانوروں کی بھی عجیب صورت حال ہوئی مگر اس میں حکومت کی لاپرواہی اور عوام کی ہٹ دھرمی بھی شامل رہی ۔ پہلے سے ہی انتظامات نہیں کرتے ۔ عوام نے کرونا سے بھی صفائی کا کچھ سبق نہ سیکھا ۔ قابل عبرت اور مزحمت ہے یہ بات کہ لوگ سمجھتے ہی نہیں کہ پرہیز علاج سے بہتر ہے ۔ حکومتی ادارے تو ہمیشہ ہی ناکام رہتے ہیں کیونکہ یہ کبھی سنجیدہ نہیں ہوتے کہ بڑھتی ہوئی آبادی کیلئے مستقل بنیادوں پر بڑے چھوٹے نالوں کی صفائی لازمی ہو اور کچرے کو ٹھکانے لگانے کا مستقل انتظام ہو تاکہ پچھلے سالوں کی غلطیاں مزید بڑھ کر جان لیوا اور دل شکستہ نتا ئج نہ دیں ۔ پہلے سے کافی بہتر انتظامات قبل ازوقت مکمل ہونے چاہئیں تا کہ عوام کے دیئے گئے ٹیکسوں کا حق ادا ہوسکے انہیں کوئی تکلیف نہ ہو ۔ دوسری طرف عوام کو بھی اپنے ملک گویا اپنے بڑے گھر( ملک ) کی پوری شعوری فکر ہونا چاہیے کہ اگر ہم اس کو بنا نہیں رہے تو اس کو ہمیں بگاڑنے کا ذرا بھی حق نہیں!

مسلمانوں کی پہچان ایمان ہے صفا ئی نصف ایمان ہے لیکن دیکھئے نا کہاں ہم اپنا انفرادی حق نبھا رہے ہیں ؟؟ ہمیں نہ صرف اپنے جسم لباس خیالات روح کو پاک رکھنا ہے  بلکہ کمائی ، حصول رزق کے ذرائع اور وقت کے استعمال کو بھی حلال رکھنا ہے ورنہ یہی گندگی، غلاظت ہماری روحوں میں اتر جاتی ہے بلکہ شاید اتر ہی چکی ہے اس لئے ہم اگلے کی تکالیف کا احساس ہی نہیں کرر ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے صحت تندرستی دی ، وسائل دیئے ، ایمان دیا ، دل دیا ، ذرا ئع دیئے اور کئی بحرانوں کے باوجود بھی آپ کو ہمیں عید قرباں نصیب کی ہم نے جانور بھی لئے اور شدید گر می میں ان جانوروں کو جسمیں اونٹ سے لیکر بکرے ، مینڈھے ، بیل سب شامل تھے بڑے شوق سے جگہ جگہ قربان بھی کئے ۔ اللہ تعالیٰ سب کی قربانیوں کو قبول فر مائے ۔ آمین ۔ ثمہ آمین ۔

صد شکر کہ رب نے آپ کو یہ توفیق دی ۔ یہ جانور بھی رب کے تھے رب کے ہیں ۔ یہ شعائر اللہ ہیں ۔ اللہ کی نشانیاں ہیں ۔ ہم نے ان کو قربان کر نے میں پھرتی دکھائی ، گوشت کا بٹوارا کرنے میںجو کیا وہ رب جانتا ہے لیکن بھائیوں آپ پر آفرین ہے ۔ اتنی شدید گرمی میں آپ نے خوشی سے یہ کام کیا ۔ گو یا یہ بھی ایک مشقت طلب  ادھ منوا کرنے والا کام تھا جیسے آپ نے اللہ کی رضا کی خاطر خوشی خوشی کیا یہ بھی اللہ ہی کی توفیق تھی ۔ مگر میں نے قربانی کے دوران تکبیروں کی آوازیں بالکل نہ سنی بلکہ شور شرابہ ہوتا رہا جو بالکل غلط ہے اتنے لوگ جمع ہوتے ہیں کاش دعا ئوں کے ساتھ تکبیریں پڑھتے ہوئی یہ کام کرتے تو یقین جانئے روح پرور اور ایمان افروز ہوتا ۔ اللہ تعالیٰ آپ سب کو آئندہ سال اس کو توفیق دے (آمین ) پھر یہ کہ مخصوص جگہوں پر قربانی کرنا زیادہ درست عمل ہے اور گلی محلے سڑکوں پر جگہ جگہ قربانی کرنا بھی چلیں مجبوری ہے تو ضرور کریں مگر اپنے دیگر مسلمان بھائیوں کی تکالیف کا خیال ضرور رکھیں ورنہ آپکی نیتوں اور رویوں سے آپ کی اس قربانی کا اجر جاتا رہے گا کیونکہ آپ صرف اپنے مخصوص حصے کی صفائی کرلیتے ہیں ۔ اردگرد خون جذب  ہو کر کئی دنوں تک تعفن دیتا ہے ۔ پھر آلائشیں اف اللہ ! اوجڑیاں ، سرے ا، مونڈیاں ، دمیں جگہ جگہ پڑی ہوتی ہیں ،جو گزرنے والوں پر تو مصیبت ہوتی ہیں مگر وہاں کے مکینوں اور سڑکوں  کے گرد مکانوں والوں کا جینا دوبھر کردیتی ہے ۔ اتنا تعفن اتنی بربادی ، غلاظت کراہت کہ اچھا بھلا بندہ الٹیاں کرنے لگتا ہے ۔ پھر اگر بچے ساتھ ہوں تو ان کے ہزارہا سوالات ! یہ کون ہے؟ یہ کس کی دم ہے ؟ گا ئو اکہاں ہے ؟ اونٹ کہاں گیا ؟ بابا یہ گندی جگہ ہے یہاں بدبو ہے ۔ انہیں کیا بتا ئیں وہ جب سرعام یہ دیکھیں گے تو آگے خود کیا کرینگے؟ ہم انہیں کیا سکھا رہے ہیں ؟ کیا ان آلا ئشوں کو ٹھکانے لگانا عوام کی ذمہ داری نہیں ؟ حکومت کے ساتھ ساتھ  ہم سب بھی ذمہ دار ہیں ۔ کچھ نہیں تو کم ازکم ایک گڑھا کھود کر اس میں ان آلائشوں کو دفنا دیا جائے جبکہ ہر دفعہ بارش کا موسم بھی ہو تا ہے ۔ ایسے میں بارشوں کے بعد جو مکھیاں نمودار ہوتی ہیں تو اس کی وجہ بھی یہی گندگی ہوتی ہے ۔ جو عوام خود مچاتی ہے پھر شور بھی خود مچاتی ہے۔ نالوں میں کچرا یا کوئی غیر ضروری چیزیں نہ پھینکیں ۔ اگر آلائشیں نہیں اٹھیں تو متعلقہ لوگوں سے را بطہ کرکے یہ کام پہلی فرصت میں کروائیں تا کہ آپ کی قربانیاں لوگوں کیلئے باعث تکلیف کبھی نہ ہوں ۔ کچرے کے ڈھیر ہی کیا کم ہوتے ہیں کہ ان پر اوجڑیاں ، مونڈیاں ، انتڑیاں اور خون آلود چٹا ئیاں ، ٹوکرے ، چیتھڑیاور پھر گندی گیلی غلاظتیں الگ عجیب بڑا منظر پیش کر رہی ہو تی ہیں ۔ جن سے ہر کسی کو تکلیف ہوتی ہے ہر گرد اپنا فرض سمجھے اور صفائی میں حصہ لے دوسروں کا خیال رکھے ۔ ابھی چھ مہینوں کے کرونا سے بھی ہم نے کیا سبق نہیں سیکھا ؟ نہیں نا  ہم تو وہ ہیں جنہوں نے کرونا سے بھی عوام کو لوٹا ، بعض نے تو اپنے سگے رشتے داروں کو یہ کہہ کر چھوڑدیا کہ کہیں ہمیں کرونا نہ ہوجائے جو جہاں ہے وہ وہیں رہے ہم نہیں آئیں گے خا ص کر بوڑھے بیماروں کے پاس نہ بچوں کو بھیجیں گے ۔ حالانکہ احتیاط ضرور کریں مگر تعلقات اور رویوں میں یہ روکھا پن دوسروں کی تکالیف میں اضافے اور متعلقہ شخص کی بیماری اور نفسیاتی فطور کا باعث ہوتا ہے جس سے دلوں میں نفرتیں جنم لیتی ہیں ۔ پھر قربانی کا جذبہ کہاں گیا؟ اللہ سب کی نیتوں کو جانتا ہے وہ اپنے بندوں سے بے پناہ محبت کرتا ہے اور قدردان بھی ہے ۔ ہماری تھوڑی سی کوشش اور قربانی کے بڑے صلے دیتا ہے ۔ ہمیں تو صرف اپنا عمل پنا رویہ درست کرنا ہے جس میں خیر خواہی ہو بھلائی ہو ، دل آہ زاری اور خود غرضی نہ ہو ، نہ دکھا وا ہو ۔ انسان اگر صحیح بات سمجھ جائے ، غلطی مان جائے تو سمجھیں وہ کل سے زیادہ آج عقل مند ہے ۔ میں نے خود بچپن میں اپنے دادا کو اپنے باپ مرحوم کو  گھر کے گرد نالیوں کا کچرا صاف کرتے دیکھا ہے ۔ میرے چاچا کو بھی میں نے گلی میں کئی بار صفائی کرتے اور موریاں ڈ نڈی سے صاف کرتے دیکھا ہے تا کہ پانی ٹھہرا ہوا نہ ہو مکھیاں نہ آئیں تعفن نہ آئے مگر اب لوگ کیوں اتنے سست اور بیزار ہوگئے ہیں ؟ کچھ تو چور ہو گئے ہیں ڈنکے کی چوٹ پر گٹر سے راتوں رات ڈھکن غائب کرتے رہتے ہیںگو یا اچانک موت کا سامان کردیتے ہیں کیسے ضمیر ہیں ان کے ؟ پھر پولیس کا عملہ اور انتظامیہ کیسے لا علم ہوتی ہے ؟ مومن ایک بل سے دوبار نہیں ڈسا جا تا تو پھر یہ کیسے کہ رمضان کی عید سے چند دن پہلے گھر کے سامنے گٹا کا ڈھکن چوری ہوا بڑی مشکل سے 5, 6ہزار کا محنت سے لگوایا تو اس عید چند روز پہلے پچھلی گلی کے گٹر کے ڈھکن غائب ، پارک کی سیٹیں ٹوٹی ہوئی ، جگہ جگہ کچرے کے ڈھیر اونچی عمارتوں والے سمجھتے ہیں کہ اوپر سے انہیں کوئی دیکھنے والا نہیں بس کچرا کیسا بھی ہو پھینک جائو ۔ جب بڑے بچوں کو نہیں سکھائیں گے بلکہ خود کرینگے تو کیسے کچرا نہ ہوگا ؟ اسطرح تو ہر وقت انتظامیہ کی مشینری فیل ہوتی رہے گی ۔ اچھے شہریوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ انتظامیہ کا بھر پور ساتھ دیں اور تعمیر ملک میں ہر طرح سے تعاون کریں ۔ پانی ضائع نہ کرے ، نہ بجلی ضائع کرے ، دن کے چار بجے تک بعض جگہوں پر اسٹریٹ لائٹیں جلتی رہتی ہیں کسی کو فکر ہی نہیں ہوتی ۔ کچرے کے بڑے ڈرم رکھے ہیں ان میں کچرا ڈالیں ، باہر کچرا ڈالتے ہیں اور بعض جگہوں پر تو بھرے ہو ئے ڈسٹ بن ہیں ۔ پیٹرول ڈال کر آگ ہی لگا دیتے ہیں ۔ اس بے وقوفی پر ماتم نہ کریں  تو کیا کریں ؟ جیسے جیسے آبادی بڑھ رہی ہے مسائل بڑھ رہے ہیں تو مسائل کا حل ہر فرد جائزہ لے کیسے نکال سکتا ہے ۔ ظاہر ہے اپنا فرض نبھائے کسی کا بھی دل نہ دکھا ئے  نہ اپنے عمل سے ا، نہ روئیے سے ، نہ ہڈ دھرمی سے ، نہ ہی تخریبی کاروائیوں اور منفی سوچ ہے کہ یہ ظلم ہے ۔ اپنا احتساب اپنا عمل بدلئے زندگی ایک بار ملتی ہے اس میں انسان ایک اچھا انسان اور مسلمان ہونے کا حق نبھائے آپ کو سدا یہاں نہیں رہنا ! ابھی اللہ نے آپ کوکعبے سے دور کیا جس کی طلب اہل ایمان کو ہوتی ہے ۔ بقول شاعر

کعبہ کس منہ سے جائو گے غالب

شرم تم کو مگر نہیں آتی

میں نے کہا اللہ میرا حال دیکھ !

ندا آئی اپنا نامۂِ اعمال دیکھ!

نہ جانے کس گھڑی میں زندگی شام ہو جائے مرنا تو ہے ہی نا تو رب کو کیا منہ دکھا ئو گے کہ زندگی میں کیا کیا ؟ اچھائی ، اچھائی کو جنم دیتی ہے یہ کیا کہ خود غرض بن گئے اپنے فائدے کیلئے کسی کو تکلیف دیتے ہی رہے احساس تک نہ کیا ! بچپن میں ایک گانا سنا تھا ابھی بھی کبھی بسوں وغیرہ میں چلتا ہے مگرپیغام یہی ہے کہ

دکھائے دل جو کسی کا وہ آدمی کیا ہے ؟

کسی کے کام نہ آئے تو زندگی کیا ہے ؟

بس اپنے حصے کا کام انفرادی اور اجتماعی حیثیت سے کرتے جائیں انجام اللہ پر چھوڑدیں ۔

جواب چھوڑ دیں