سب سے بڑا جہاد

سب سے بڑا جہاد ظالم بادشاہ کے سامنے کلمہ حق بو لنا ہے ۔

میرے خلوص کا اس میں کوئی قصور نہیں

تیرے سلوک نے لہجہ بدل دیا میرا

اسرائیل کو تسلیم کرنا مسلمانوں کیلئے چاہے وہ کہیں بھی ہوں کسی صورت مناسب نہیں کیونکہ یہ ظلم کو بڑھاوا دینے کی بات ہے ۔ ظالم کا ساتھ دینے کی بات ہے۔ حکومت، میڈیا ، فوج سب کیلئے یہ لمحہ قابل غور ہے کہ ہم اسرائیل کو کبھی قبول نہیں کرسکتے نہ ہی اسے کرنا چاہئے کیونکہ یہ غلط بات ہے ، حق بات بالکل نہیں ۔ ہمیں نہ دنیا کی باتوں میں آنا ہے نہ مغربی دنیا سے ڈرنا ہے ہر بندے کو خود اللہ کو جواب دینا ہے کہ اس نے حق کی خاطر کس طرح کی گواہی دی ، ظالم کے ظلم کو روکنے کی کوشش بھی نہ کی ؟ ہم کیسے مسلمان ہیں ؟ ہر بندے کا اپنا رویہ اپنا فیصلہ ہے اسے عقل سلیم دیکر بھیجا گیا ہے ۔ حق اور سچ کو نہ جانا تو کچھ بھی نہ جانا۔ جیسے یو ۔ اے ۔ ای نے اسرائیل کو تسلیم کیا تو ہمارے لوگ یہ بات سمجھ ہی نہیں رہے کہ یہ کوئی اچھا اقدا م ہے ۔ صرف غصہ کرنا بڑبڑانا اور چھوڑ دینا حل نہیں ۔ ہماری فوج کو میڈیا کو حکومت کو اس کی مخالفت کرنا چاہئے مگر اس ظالم اسرائیل کو ہر گز تسلیم نہ کریں اور نہ ہی تسلیم کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کریں کیونکہ ظلم ظلم ہے ۔ اسرائیل کی ہر چیز کا تجارتی ، ثقافتی ، معاشی ، معاشرتی ہر لحاظ سے مخالفت کرنا چاہئے بلکہ بائیکاٹ کریں ۔ ان کی ناانصافی کو اجاگر کریں وہ ہمارے لئے خطرناک مجرم ہے جو فلسطینیوںکی برسوں کی جانی مالی قربانیوں کودائو پر لگانا اور مظلوموں کو بے یارو مددگار چھوڑنا کسی مسلمان کا شیوہ کبھی نہیں ہوسکتا وہ محبت نفرت ہر کام اللہ کیلئے اور اللہ ہی کی خاطر کرتا ہے اور اسی کا ڈر اور اس کی محبت ہمیں درکار ہے ۔ میڈیا اور صحافی حضرات اس میں بہت اچھا کلیدی رول اپنا سکتے ہیں ۔ علماء حضرات بھی اپنا رول ادا کرسکتے ہیں ۔ ہر پاکستانی اپنا مثبت رول اداکرکے ظلم کو روک سکتا ہے ۔ اسطرح خود بخود کشمیری مسلمانوں کو اور ان کی اور دیگر مسلمانوں کی ان کے لئے کی گئی کوششوں میں ایک منصفانہ مثبت فیصلہ آسکتا ہے ۔ ظلم کے خلاف انسانی حقوق کے حق میں آواز اٹھا کر ہم مظلوموں کا جائز حق دلا سکتے ہیں ۔ یہی تو مقصد زندگی ہے۔ ہر بات میں ہاں میں ہاں ملانا منافقت ہے ، ذلالت ہے ۔ مسلمان نہ ڈرتا ہے نہ دبتا ہے وہ صرف اور صرف حق کی خاطر حق بولتا ہے ۔ وقت پر حق کی کھلی شہادت نہ دینا بھی ظلم ہے ۔ میری تمام مخیر خواتین و حضرات اور حکومتی اہلکاروں سے میڈیا سے گزارش ہے کہ اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک کہیں اور آج اسرائیل کی مخالفت کرکے نہ صرف فلسطینیوں کی قوت بنیں بلکہ کشمیریوں کیلئے میدان صاف کریں تا کہ وہ ایک ایمانی اور روحانی قوت سے حوصلے سے جان و مال کی قربانی دے کر آگے بڑھیں اور ظالموں کو منہ کی کھلائیں کبھی پیچھے نہ ہٹیں ، آگے ہی آگے بڑھتے جائیں ۔ آخر کار ہم مسلمان امت مسلمہ کب بنیں گے ؟ یہ تو گروہ بندی کے چکروں میں پھنسے ہوئے ہیں اور زیادہ پریشان کن بات یہ ہے کہ اس غلطی کا احساس تک نہیں ۔ جب ضمیر ہی سوئے ہوئے ہیں تو کوئی بھی اعلیٰ عہدے پر بیٹھے ہوں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کام وہی زیرو ہوگا !! آپ کو اللہ نے ہیرو بنایا ہے ۔ خلیفۃ الارض اپنا مشن دیکھیں اور اپنا ٹینشن دیکھیں ؟ تو کل والوں کو ٹینشن نہیں ہونا وہ تو دوسروں کیلئے ٹینشن بن سکتے ہیں ۔ حق کی خاطر حد سے گزرسکتے ہیں پھر سوچیں ہم اور آپ کیسے ؟ ہمیں تو بہترین امت بنا کر بھیجا گیا ہے جو برائیوں سے روکیں اور بھلائیوں میں سبقت لے جائیں تو ہمارا کیا کام ہے ؟ یہ احتساب ہی نہیں عین عمل کا وقت ہے ۔ ہر طرح کے جہاد کا وقت ہے ۔ ہر صورت ہر جگہ ہمارا یہی عمل ہونا چاہئے تا کہ گھر خاندان، معاشرہ ، ملک اور امت مسلمہ کو سرخرو رکھے ۔ کیا آپ اسی بات سے متفق نہیں ؟ تقدیریں تو نیک دعا ئوں ، تمنا ئوں اور سچی اور کھری حقیقتوں اور بہترین عمل سے اتحاد اور اتفاق سے بدلتی ہیں ۔ خود بخود نہیں بدلتی ! تو پھر کیا سوچا ہے ؟ ہمارے کشمیری بھائیوں کی منتظر نظریں اور تنگیاں تکالیف! کیا اب بھی قابل التفات نہیں ؟ کیا ہم اتنے کمزور ہیں ؟ ہمیں ان مظالم سے نجات دلانے کی کوئی صورت نہیں نکالنی ؟ صرف ہونٹ ہی ہلاتے رہنا ہے ۔ عمل کا وقت کب آئے گا اور کیا آخرت بھول گئے ؟ یا ضمیر مرگئے ؟ لگتا ایسا ہی ہے۔

سانسوں کے سلسلے کو نہ دو زندگی کا نام

جینے کے باوجود بھی کچھ مرگئے

جواب چھوڑ دیں