اقبال کا تصور خودی‎

علامہ اقبال کی شاعری ہو یا ان کی فکر! وہ زندگی کے کسی ایک پہلو کی ترجمان نہیں۔بلکہ فکر اقبال میں انسان کے تمام شعبہ ہائے زندگی اور ان کی حقیقت اپنی آب و تاب کے ساتھ جلوہ گر ہے۔اقبال کی شاعری دراصل ان کی پوری فکر کی ترجمان ہے۔اور ایک مسلمان کے لیے رہنما،زندگی گزارنے کے اصولوں سے بھرپور ایک خزینہ ہے۔

فکر اقبال نے انسانی زندگی کو مسلسل عمل پیہم سے عبارت کیا ہے۔زندگی کو انھوں نے بادشاہی میں چھپی فقیری نہیں بلکہ فقیری میں چھپی بادشاہی کا نام دیاہے۔اور اسے وہ تمام جہان کی دولت سے زیادہ گراں اور قیمتی سمجھتے ہیں۔

اقبال کی فقیری ان کے تصور خودی سے جا جڑتی ہے،اور وہ یوں اظہار کرتے ہیں کہ!

مرا طریق امیری نہیں فقیری ہے

خودی نہ بیچ غریبی میں نام پیدا کر

ان کی زندگی میں انا اور خودی دو الگ تصورات کی حیثیت رکھتے ہیں۔خودی میں خدا پر توکل جلوہ گر نظر آتا ہے۔جب کہ انا محض” میں “کا نام ہے۔

وہ دین اور خدا کے معاملے میں سمجھوتے کے قائل نہیں ہیں،اس کو وہ اپنی خودی کی توہین سمجھتے ہیں۔دوستی اور دشمنی کے معیارات ان کے ہاں وہ ہیں جو خدا نے مقرر کردیے ہیں۔اس لیے ان کی خودی پر انا پرستی کی چھاپ لگانے والے نرے جاہل ہیں۔

وہ خودی سے آباد دل کو خدا شناس سمجھتے ہیں۔اس لیے کہتے ہیں:

خودی کو جس نے فلک سے بلند تر دیکھا

وہی ہے مملکت صبح و شام سے آگاہ

وہی نگاہ کے ناخوب و خوب سے محرم

وہی ہے دل کے حلال و حرام سے آگاہ

یہی تصور خودی ایک مسلمان کو مومن بناتا ہے۔جس کی ازان سے شبستان وجود لرز اٹھتا ہے۔اور پھر یہ تصور خودی ان کے مرد مومن کے جگر میں وہ آگ پھونک دیتا ہے کہ لذت پرواز اسے سینہ دراج عطا کرتی ہے۔حق شناس بناتی ہے اور وہ معرکہ حق و باطل کے لیے ہر دم صف آرا نظر آتا ہے۔

پھر یہی مرد مومن عشق کی بلندیوں کو چھوتا ہے اور علم کے سمندر میں ڈوب کر علم کا جواب بن کر ابھرتا ہے۔ان کا علم، عشق میں ڈھل کر تخمین و ظن اور کتاب کی قید سے آزاد ہو کر سراپا حضور بن جاتا ہے۔سارے حجابات توڑ دیتا ہے۔جب یہ حجابات ٹوٹتے ہیں تو اس پر اسرار شہنشاہی وا ہونے لگتے ہیں۔اور یہ اسرار اس کو آئینہ موت میں رخ زیست دکھاتے ہیں،جس کے بعد وہ حیات ابدی کی تلاش میں چل پڑتا ہے۔

ہو اگر خود نگر و خود گر و خود گیر خودی

یہ بھی ممکن ہے کہ تو موت سے بھی مر نہ سکے

دراصل یہی وہ مرد مومن ہے جس سے مخاطب ہو کر اقبال کہتے ہیں کہ امت کے امراض سخت باریک ہیں، غلامی کی نفسیات رکھنے والے انھیں نہیں جان سکتے۔

وہ غلامی کو لعنت اور فرعونیت سمجھتے ہیں،اور کہتے ہیں کہ:

بدن غلام کا سوز عمل سے ہے محروم

کہ ہے مرور غلاموں کے روز وشب پر حرام

اسی ضمن میں وہ مغرب کی ذہنی غلامی سے نجات کی بات کرتے ہیں اور مرد مومن سے اپنے اس خواب کی تعبیر چاہتے ہیں کہ مسلمان لذت جاہ حشم کا اسیر نہ بنے، یعنی نہ اس کے صوفے افرنگی ہوں اور نہ وہ عیش و آرام کا رسیا ہو۔

جہاں جوانوں کی تن آسانی سے تنگ ہیں وہیں خانقاہی زندگی کے اس طرز سے جو جمود طاری کردے،نالاں نظر آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ:

نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسم شبیری

کہ فقر خانقاہی ہے فقط اندوہ و دلگیری

غرض کہ اقبال کی شاعری ایک فن نہیں بلکہ زندگی ہے،جس میں تغیرات رونما ہوتے ہیں مگر وہ ان سے تھک کر ہمت نہیں ہارتے۔یہ حوصلہ تصور خودی کا صلہ ہے۔جس میں انسان پر بجلی حلال اور حاصل حرام ہے۔

جواب چھوڑ دیں