بات تو سچ ہے لیکن بات ہے رسوائی کی 

رات کا پہلا پہر تھا۔ بظاہر ہر جانب سکوت تھا ۔یکدم فضا دھماکوں سے گونج اٹھی ۔ یکے بعد دیگرے کئی دھماکے ہوئے۔ پرندے جو شام ڈھلے ہی اپنے گھونسلوں میں پہنچ گئے تھے ہڑبڑا کر اپنے گھونسلوں سے باہر آگئے اور اندھیرے ہی میں محفوظ پناہ گاہ کی تلاش میں اِدھر اُدھر اڑنے لگے ۔ عجیب سا سماں تھا مسلسل فائرنگ سے دل کانپ رہا تھا ۔ اب آپ سوچ رہے ہونگے کہ ابھی چند دنوں پہلے ہی تو بیروت میں نائٹریٹ کے زخیرے پر آگ لگنے سے زبردست دھماکے ہوئے تھے ، یا الہی خیر اب کیا ہوگیا ؟؟ لیکن یہاں تو ساتھ فائرنگ بھی ہورہی ہے پھر تو ضرور کسی دشمن ملک نے حملہ کردیا ہوگا !! ابھی چند دنوں پہلے ہی کشمیر ریلی میں بھی تو دستی بم سے حملہ ہوا تھا !!

– جی نہیں آپ بالکل غلط رخ پر سوچ رہے ہیں !! ارے بھول گئے کیا ؟؟

– آج 13 اگست کی رات ہے اور ۱۲ بجتے ہی اقبال کے شاہین شروع ہوجاتے ہیں پٹاخے پھوڑنا ۔۔۔۔۔

– کیوں آپ کیا سمجھے تھے ؟؟؟

– ارے یہ ۱۹۸۰ نہیں ۲۰۲۰ ہے !! اب یہاں پہلے کی طرح ریڈیو، ٹیلی ویژن یا ریکارڈر پر ترانے نہیں چلتے کیوں کہ اسکی جگہ لے لی ہے بڑے بڑے باجوں نے ۔۔۔۔!! یقین جانیے پاکستانی جوانوں میں عقابی روح تو بیدار ہی ۱۳ اگست کی رات کو ہوتی ہے ۔۔۔۔اور پھر وہ زور زور سے باجے بجا کر آسمان سر پر اٹھا لیتے ہیں اور اپنی حب الوطنی کا اظہار کرتے ہیں …

– ارے ۲۰۲۰ ہے یہ!! طریقے بدل گئے ہیں یومِ آزادی منانے کے !! اب ہم جھنڈیاں تھوڑی لگاتے ہیں ہم تو ہر ۱۴ اگست کو لاکھوں پودے لگاتے ہیں وہ الگ بات ہے کہ سارا سال ہمیں خبر نہیں ہوتی کہ ہمارے لگائے ہوئے پودے اب موجود بھی ہیں یا نہیں ۔۔۔لیکن خیر ہر سال باقاعدگی سے پودے تو لگاتے ہیں ۔پاکستان کو صاف اور سرسبز بنانے کا عزم جو کیا ہے ہم نے !!! یہ دوسری بات ہے کہ ہم کچرا اب بھی کوڑے دان میں نہیں ڈالتے بلکہ چلتے پھرتے اِدھر اُدھر ڈال دیتے ہیں چاہے کوڑے دان نزدیک ہی کیوں نہ موجود ہو ۔۔

– بات کہاں سے شروع ہوئی تھی اور کہاں پہنچ گئی ۔۔۔مجھے تو صرف یہ بتانا مقصود تھا کہ یہ پاکستانی قوم جو سارا سال سوئی رہتی ہے ، ۱۳ اگست کی رات کے اس پہر جاگتی نظر آتی ہے ۔۔اس وقت عوام خصوصاً نوجوانوں میں بہت جوش و ولولہ پایا جاتا ہے اور انکے جذبات دیکھ کر لگتا ہے کہ بس اب پڑوسی ملک کی خیر نہیں ۔۔۔۔لیکن یہ جوش و ولولہ صرف اسی وقت کے لئے ہوتا ہے اور عقابی روح ذرا دیر کے لئے ہی بیدار ہوتی ہے اور پھر ، پھر یہ ہوتا ہے کہ ۱۴ اگست گزر جاتی ہے اور زندگی اپنے معمول پر آجاتی ہے ۔

جواب چھوڑ دیں