سہیلیاں

کئ سالوں بعد اسکول کی سہیلیاں انٹرنیٹ کے ذریعہ ایک دوسرے سے ملاقات کر رہی تھیں اور صوفیہ بھی اس میں شامل تھی۰خوشی کا وہ سماں تھا جیسے شادی شدہ بہنیں کافی عرصہ بعد اپنی امی کے گھر جمع ہوئ ہوں ۰ہر دوست ہی فرحان تھی۰ایک دوسرے کے بارے میں جاننے کے لیے بے چین تھیں اور بہت کچھ چند ہی لمحوں میں بتا دینا چاہتی تھیں۰کوئ صرف نام بتا کر دوسرے کی یادداشت کا امتحان لے رہی تھی۰تو کسی دوسری کو اسکول کی ان گنت باتیں یاد ہونے پر شاباشی مل رہی تھی۰ اور اس کی یادداشت کو سلام کیا جارہا تھا تو ان گنت ایوارڈ سے بھی نوازا جارہا تھا۰کوئ شادی کی تصویریں دیکھنے کی ضد کر رہی تھی تو دوسری بچوں کو دیکھنے کے لیے بضد تھی ،کوئ بہت ہی میسج کر رہی تھی تو کوئ ایک چٹکلہ چھوڑ کر اپنی موجودگی کا احساس دلا رہی تھی ۔کسی کو دوسری کی ٹائپنگ اسپیڈ پر حیرانی تھی تو کوئ چار میسج لکھنے پر ہی اپنی تھکن کا بتا رہی تھی۰اور اب صوتی پیغام پر آگئ تھی۔

کوئ اپنی استانیوں کو یاد کر رہی تھی۰تو کوئ صرف بچپن کی شرارتوں کو محفوظ کرنا چاہتی تھی۰کسی کو اپنی استانیوں کی سختیاں یاد آرہی تھیں اور وہ یہ کہنے پر مجبور تھی کہ آج میرے لیکچرر بننے میں میری اسکول کی استانیوں کا ہاتھ ہے۰تو کوئ ان باتوں پر بات کرنے سے گریزاں صرف بچپن کے ہنسی مذاق کو یاد کرنا چاہتی تھی ۔ کوئ روزانہ دوسری سہیلی کا فلوری بسکٹ کھانا یاد کر رہی تھی تو دوسری کو چیری بالز کھانا یاد تھا۔

بعض ساتھیاں لیب کوٹ پہننے اور اپنے آپ کو مستقبل میں ڈاکٹر بنا سوچ کر اس فرحت کو محسوس کرنے کو یاد کررہی تھیں تو کوئ چہتی تھی کہ میں پرنسپل بنوں گی اسی بات کو یاد کیے جارہی تھی اور کہ رہی تھی کہ کیا خواہشات تھیں اُس زمانے میں۔

بہت سوں کی شادی ہوگئ تھی۰تو کوئ اس شادی کے لڈو کھانے سے محروم تھی۰کسی نے دنیا کے کی ممالک کی سیر کر لی تھی اور اس کے باوجود وہ یہ کہنے پر مجبور تھی کہ پاکستان کے شمالی علاقہ جات کی خوبصورتی کاکوئ مقابل نہیں۰کوئ عمرہ کر آئ تھی تو کسی نے حج کا فریضہ بھی انجام دے دیا تھا۰کوئ ایم بی بی ایس کر کے ڈاکٹر بن گئ تھی تو کسی نے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرکے اپنے نام کے ساتھ ڈاکٹر کا لفظ لگایا تھاانھی میں کچھ بہت افسردہ بھی تھیں تو کچھ خوش بھی ،کسی کو مانٹیسری کا کورس کر کے اسکول کے بچوں کے ساتھ نرمی کرنے پر خوشی تھی لیکن اپنے بچوں پر چیخنے کا دکھ ت تو کسی کے بچے ہی نہ تھے۰اور اسے اس نعمت کا نہ ملنا اندر ہی اندر گھلا جارہا تھاکسی کے صرف بیٹے تھے تو وہ بیٹیوں کی پیداءش کے لیے منتظر تھی تو کسی کی صرف ایک ہی اولاد تھی تو وہ مزید بیٹی یا بیٹے کا دنیا میں آنے کا انتظار کر رہی تھی وہ ہیں کوئ بیٹا پیدا کرنا چاہتی تھی۔

کسی کی شادی زیادہ عمر میں ہوئ تھی اور اب اسکے اولاد نہیں تھی تو تمھاری شادی کب ہوگی، کا جواب دیتے دیتے یہ سوال کہ اب بچے کیوں پیدا نہیں ہورہے ؟؟؟؟کی وجہ لوگوں کو بتاتے بتاتے تھک گئ تھی۔

کسی نے گاڑی چلانی سیکھی تھی اور وہ یہ بات بہت خوشی سے بتا رہی تھی تو کسی نے بیکنگ ،کوکنگ،آرٹ اور کرافٹ تو سلائ کے ڈپلومہ کر لیے تھے اور وہ دھڑا دھڑ ان سندوں کی تصویریں گروپ پر لگا کر شاباشی وصول کر رہی تھی ،تو کوئ ہومیوپیتھک ڈاکٹر بن گئ تھی اور بچوں والی دوستیں اب اس سے بچوں کے ٹانسلز کی دوائیں منگوانے کے لیے اس کے گھر کا پتہ معلوم کر رہی تھیں۔ایک سہیلی کو بارہویں جماعت کے آگے پڑھائ جاری نہ رکھنے کا دکھ تھا اور وہ کہ رہی تھی کہ میں صرف “میسج”پڑھتی ہوںتو دوسری نے اس کا ساتھ دیا تھا میں بھی تمھاری جیسی ہوںاور انھیں تسلی ہوئ تھی کہ چلو “یک نہ شد دو شد”۔

اردو میڈیم کے اسکول سے پڑھنے پر سب ہی شکر ادا کر رہی تھیں کہ انگریزی تو تقریبا ًسب ہی کو آگئ تھی ،کہ اردو میں جو ہمارا اسلامی ورثہ ہے وہ انگریزی میں کہاں؟؟؟تو کوئ یہ کہ رہی تھی کہ میرے سسر میری اتنی اردو زبان سے واقفیت پر بڑے خوش ہوتے ہیں کہ میں مطالعہ پاکستان ،گھریلو معاشیات ،خلیہ،طبیعات کے الفاظ استعمال کرتی ہوں تو وہ کہتے ہیں یہ ہے میری اصلی بہو ،تو ایک ساتھی نے کہا میں نے جب اپنی ساس سے پوچھا آپ کو اسہال تو نہیں ہو رہے؟تو وہ اپنی بیماری کو بھول کر میرے ماتھہ پر بوسہ دینے لگیں اور جب کہا کہ آپ کا نظام تنفس خراب محسوس ہوتا ہے تو انھوں نے اپنے بٹوے میں سے پانچ سو کا نوٹ میرے ہاتھ پر رکھ دیا۔

یہ سُن کر تو ایک اور سہیلی نے اسےحیاتیات،قائدانہ صلاحیت،کیمیا،ریاضی ،معاشرتی علوم،آلات جراحی،انگشتہ ،جیسے الفاظ بھی بتائے کہ یہ سب بھی اپنی ساس کے سامنے کہوں گی تو وہ یقینا اپنے ہاتھ سے سونے کی چوڑی اتار کر تمھارے ہاتھ میں پہنادیں گی۔یہ سُن کر سب نے ہنسنے والی ایموجی بھیجی۔

اس اسکول کی ساتھیوں سے ملنے میں ایک بڑی اچھی بات محسوس ہوئ تھی کہ کوئ اپنی ساس ،نندوں ،بھاوجوں کی بُرائ نہ کر رہی تھیں۔بلکہ ان کی خوبیوں کو بیان کر رہی تھیں،کوئ جنرل کی بیوی بن گئ تھی تو کسے کے میاں مینیجر کی پوسٹ پر فائز تھے تو کسی کے شوہر کپڑوں کا کاروبار کر رہے تھے،تو کسی کے جنرل اسٹور پر بیٹھتے تھے۰لیکن ان سب میں کوئ اسٹیٹس کا فرق ظاہر نہ ہورہا تھا۰بلکہ سب ایک دوسرے سے اچھی طرح بات چیت کر رہی تھیں یہاں تک کہ فرسٹ آنے والی اور خراب پڑھنے والی سب ایک پیار محبت سے باتیں کر رہی تھیں۔

کوئ مشترکہ خاندانی نظام سے نالاں تھی تو کوئ اکیلے رہنے کے نقصانات بیان کر رہی تھی۔ کسی کی امی اس دنیا سے رخصت ہوگئ تھیں تو کسی کے ابو۰اور ایک دوست ایسی تھی کہ جس کی بہن اس سے ایک سال بڑی تھی اور اس کے شوہر کا انتقال ہوگیا تھا اور اس خبر نے اب ہی کو افسردہ کر دیا تھا۔تقریباً تین دن سے یہ ملاقاتیں جاری تھیں ۰اچھا وقت،تو مشکل وقت،اچھی یادیں تو تلخ بھی۔

وقت گزرے جارہا تھا اور اس وقت صوفیہ کو یہ آیت یاد آرہی تھی کہ “ہم نے موت اور زندگی کو اسل ایجاد کیا کہ تمھیں آزما کر دیکھیں کہ تم میں سے کون بہتر عمل کرنے والا ہے” کیونکہ آزمائش تو ہر کسی کی ہو رہی تھی۰بس حالات و واقعات ذرا مختلف تھے۔

جواب چھوڑ دیں