برطانیہ کیا امریکی سامراج کا حصہ؟

قارئین آپ کو معلوم ہوگا کہ برطانیہ خود ایک سامراج رہا اور اس نے بیسویں صدی میں پہلی اور دوسری جنگ عظیم بھی سامراجی نظام کے تحت لڑی ۔ پہلی جنگ عظیم کے بعدسلطنت عثمانیہ کے ٹکڑے ٹکڑے کیے اور اس طرح فاتح قرار پایا اور دوسری جنگ عظیم میں بھی برطانیہ نے جرمنی کو شکست فاش سے دوچار کیا اور ھٹلر کی حکومت کو ختم کر کے یورپ میں فاتح قرار پایا مگر دوسری جنگ عظیم کے بعد برطانیہ خود بھی سمٹ کر صرف ایک جزیرہ نما ملک بن گیا مگر اس کے سامراجی نظام اور سامراجی حرکتیں ختم نہ ہوئی ۔

وقت گزرتا گیا اور یوں سوویت یونین بھی ایک ابھرتی ہوئی طاقت کے طور پر سامنے آیا مگر اس کے جنگی عزائم اور اس کی دنیا میں حکمرانی کے خواب ختم نہیں ہوئے۔

برطانیہ نے 70 کی دہائی میں کئی یورپی ملکوں کے ساتھ مل کر یورپی یونین کے قیام میں مدد کی مگر اس کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ ان تمام ممالک کے ساتھ مل کر یونین کو اقتصادی بلاک کے طور پر پیش کرے مگر یونین کو قیام کرنے کے بعد 2018 میں ایک ریفرنڈم کے تحت برطانیہ نے یورپی یونین سے علیحدگی کا اظہار کیا۔ گو کہ ذاتی طور پر ریفرنڈم کا مقصد یہی تھا کہ برطانیہ اپنے فیصلوں میں آزاد رہے گا اور یورپی یونین سے علیحدہ ہو کر اپنے تمام معاملات کو خود دیکھے گا مگر پس پردہ حقائق یہ ہیں کہ برطانیہ اس طرح یورپی یونین سے آزادی کے بعد اپنے تمام معاملات کو امریکا کے پلڑے میں ڈالے گا اور اس کی پالیسیوں کے ساتھ ہم آہنگ ہوگا۔

برطانیہ یورپی یونین کا مستقبل میں ممبر رھتا تو اس کے لئے بہت سارے فیصلے کرنا مشکل تھےاور اس طرح کھل کر امریکہ کی حمایت میں نہیں آ سکتا تھا حالیہ امریکہ چائنا سرد جنگ میں برطانیہ کا رویہ کھل کر امریکہ کے ساتھ کھڑا ھوتا ہوا نظر آیا برطانیہ کے اس رویہ کی وجہ سے چائنیز سفیر نے لندن میں کھل کر اپنے ایک انٹرویو میں برطانیہ کو خبردار کیا کہ وہ اپنے رویے سے باز رہے اور کھل کر مخالفت میں نہ آئے برطانیہ جو کہ ماضی کا سامراج رہا اس کے لئے یہ مشکل ہے کہ وہ اب ایک اچھا بچہ بن کر دنیا میں رہے اس لئے اس کی کسی نہ کسی صورت میں کوشش رہے گی کہ کسی طرح یا تو سپر پاور کا حصہ رہے یا اس کا اہم اتحادی رہے۔

یورپی یونین سے علیحدگی کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ برطانیہ کھل کر امریکہ کی حمایت نہیں کر سکتا تھا اس لئے اس نے یہی ضروری سمجھا کہ اپنے آپ کو سب سے پہلے یورپی یونین سے علیحدہ کرے تاکہ وہ کھل کر ایک سپر پاور کے روپ میں دنیا میں سامنے آئے اور وہ اپنے آپ کے مفادات کا کھل کر تحفظ کرسکے اور دنیا میں ایک سامراجی تصور کو قائم رکھ سکے برطانوی مملکت کی نفسیات ہمیشہ سے ایک سامراجی رہی ہے اور اس کو امریکہ کے ساتھ شراکت داری اور تعاون اور اس کے ساتھ اتحاد زیادہ جچتا ہے اس لیے امریکہ چین کی سرد جنگ کے اثرات اگر یورپ میں نظر آئیں گے تو اس وقت برطانیہ امریکہ کے ساتھ کھڑا ہوگا وہ اس کوشش میں بھی ہوگا کہ وہ کچھ یورپی ممالک کو بھی اپنے ساتھ ملا لے ۔

دنیا میں ہر قوم کی ایک ماضی کی نفسیات ہوتی ہے اور ہر قوم اپنی ماضی کی نفسیات کو لے کر ہی چلتا ہے میرے نزدیک برطانیہ کے مفاد میں بھی ہے کہ وہ سامراجی نظام کے تحت پر امریکہ کا ساتھ دے اور مستقبل میں ہونے والی تمام جنگوں کی منصوبہ بندی کرے۔

برطانوی قوم اور یورپی ممالک کے عوام کے درمیان سب سے بڑا فرق ان کی نفسیات اور ان کے سوچنے کا انداز ہے لہٰذا آپ مستقبل میں دیکھیں گے کہ برطانیہ دنیا کے تمام جنگی معرکوں میں پیش پیش ہوگا۔

جواب چھوڑ دیں