الحاد، انکار ذات الہی کا عجیب نظریہ

کچھ روز قبل مجھے اپنے مادرعلمی میں جانے کا شرف حاصل ہوا۔ کورونا کے باعث تمام تعلیمی اداروں کی طرح دارالعلوم محمدیہ غوثیہ بھیرہ شریف میں بھی گذشتہ چند ماہ سے تعلیمی سرگرمیاں معطل رہیں ۔مگر حالیہ ایام میں دورہ حدیث شریف کے طلباء کے امتحانات کے باعث ادارے کو جزوی طور پہ کھولا گیا۔ اساتذہ کرام سے ملاقات کا سلسلہ شروع ہوا تو میری ملاقات قبلہ علامہ حافظ نعیم الدین صاحب الازہری سے ہوئی۔ آپ سے جامعہ الازہر الشریف کے احوال پہ تبادلہ خیال ہوا۔ کچھ اور باتیں بھی ہوئیں جو خالصتاً علمی نوعیت کی تھیں کچھ کتب پر تبصرے بھی ہوئے۔ باتوں باتوں میں الحاد و ملحدین کا ذکر ہوا تو قبلہ فرمانے لگے کہ کاشف صاحب ہم نے ایک 3 روزہ سیشن شروع کیا ہے آپ بھی اس میں شامل ہو جائیے۔ آمنا کہتے ہوئے استاذی المکرم کے حکم پہ اس کلاس کا حصہ بنا جو زوم ایپ پہ رد الحاد و ملحدین کے حوالے سے انعقاد پذیر تھی۔ کلاس کیا تھی گویا علم کا ایک بحر بے کنار تھا اور مجھ جیسے ناکارہ خلائق کو ایک بار پھر گلستان ضیاءالامت سے خوشہ چینی کا شرف مل رہا تھا۔

سیشن کا عنوان : الحاد، عصر حاضر کے ملحدین کے اعتراضات کا علمی محاکمہ اور نسل نو کی الحاد پر فکری بالیدگی کے ذرائع

اس سیشن کے ابتدائیے میں جامعہ الازہر الشریف کے فارغ التحصیل عظیم مذہبی سکالر جناب ثاقب شریف الازھری نے ایک اہم ترین موضوع کی طرف توجہ دلائی جو اس دور کی اہم ضرورت بھی ہے اور ملحدین کے رد کے لیے نوجوان طبقہ کے لیے نسخہ اکسیر بھی۔ثاقب صاحب نے فرمایا کہ آج کے دور میں ملحدین کا رد کرنے کے لیے انتہائی ضروری ہے کہ آپ دلیل کے ساتھ نرمی سے بات کریں قرآن کریم تو فرعون موسیٰ سے بھی کلام کرنے کے لیے *قول لینا* کی ترغیب دیتا ہے۔ ان اصول اختلاف کو سکھانے کے بعد الحاد کے مادہ اشتقاق کو زیر بحث لایا گیا اور اس کی لغوی و اصطلاحی تعریف بیان کی گئی۔ الحاد اپنے لغوی معنیٰ کے اعتبار سے ظلم کا مترادف ہے اور راہ حق سے اعراض کرنے والے کو اسلام ملحد کہتا ہے۔

لغت کی کتابوں کے ساتھ ساتھ یہی معنیٰ قرآن کریم میں بھی استعمال ہوا ہے اللہ رب العزت نے الحاد کے صریح لفظ کو سورۃ الحج میں ذکر فرماتے ہوئے اس سے مراد “راہ حق سے روگردانی” ہی لی ہے۔ عہد جدید و قدیم ہر زمانے کے ملحدین کے اعتراضات کا اگر علمی محاکمہ کیا جائے تو درحقیقت یہ حقیقت سے اعراض ہی ہے کیونکہ کائنات کی سب سے بڑی حقیقت اللّٰه رب العزت کی ذات بابرکات ہے اور ملحدین کا بنیادی اعتراض ہی وجود باری تعالیٰ پر ہے۔ ملحدین اپنے عقائد کی بنیاد بھی انکار وجود باری تعالیٰ پہ رکھتے ہیں۔ اور یہ نظریہ جدید دور کی پیداوار نہیں بلکہ زمانہ قدیم اور عہد صحابہ و تابعین سے چلا آ رہا ہے۔ اللّٰه کریم کی ذات کا انکار وہ بنیادی نکتہ ہے جس پر یہ طبقہ آج بھی قائم ہے امام اعظم رضی اللّٰه تعالیٰ عنہ نے اپنے عہد میں ان بدطینت لوگوں کے نظریات کی عقلی و نقلی دونوں طرق سے نفی فرمائی اور مناظرہ بھی کیا۔ لیکن یہ نظریہ ازمنہ قدیم میں محدود پیرائے پر محدود طبقے تک ہی رہا۔

زمانہ جوں جوں ترقی کرتا گیا علمانیین(سیکولر طبقات) اور دیگر صیہونی و صلیبی طاقتوں کو جب عروج ملنے لگا تو ڈارونائز لوگ پیدا ہونے لگے اور ڈارون (جو الحادی نظریات کا موجد تھا) نے الحادی نظریات کو سائنٹیفک بنیاد پر فروغ دیا۔ جس سبب الحاد کو ایک نئی فکر ملی جو فکر آج بھی ڈارون ازم کے نام سے پہچانی جاتی ہے۔ لیکن یہ ساری فکر عالم کفر تک ہی محدود رہی اسلامی ممالک اپنے نظریات میں خالص تھے کہ اچانک خلافت عثمانیہ ٹوٹ گئی خلافت کے منتشر ہونے کی دیر تھی مصطفیٰ کمال اتاترک اور اس جیسے کئی لبرلز نے اسلامک معاشروں میں ماڈرنزم کے نام سے الحاد کو فروغ دینا شروع کر دیا۔ ڈاروانائز اور لبرل طبقے نے ہر دور میں سادہ لوح مسلمانوں کو عقلی ادلہ اور سائنسی نظریات سے مات دینے کی کوشش کی۔ مگر امت مسلمہ پر اللّٰه کریم کا یہ احسان ہے کہ الله کریم نے اپنے ہی کلام قرآن مجید سے مسلمانوں کو عقلی ادلہ بھی سکھائے اور ان سے استدلال کا طریقہ کار بھی سمجھا دیا۔

قبلہ ثاقب صاحب نے چند ایک امثلہ سے قرآن کریم کے عقلی ادلہ کی وضاحت کرتے ہوئے اپنی گفتگو کو مکمل فرمایا۔ یوں سیشن کا ابتدائیہ اپنے اختتام کو پہنچا۔ پہلے سیشن کا پہلا حصہ مکمل ہوا دوسرا حصہ نماز عشاء کے لیے تقریباً 25 منٹ کے توقف کے بعد دوبارا شروع ہوا جس میں محترم المقام حضرت علامہ نعیم الدین الازہری صاحب نے الحاد اور دیگر فتن کو موضوع بحث بنایا۔ قبلہ نے ابتداء میں قرآن کریم اور احادیث نبویہ سے فتنوں کی حقیقت کو اجاگر کرتے ہوئے امت مسلمہ کو تنبیہ فرمائی۔ آپ نے بتایا کہ رسول پاک صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ ایسا پرفتن دور بھی آئے گا کہ انسان صبح کے وقت تو مومن ہو گا مگر شام تک کافر ہو جائے گا اور اگر شام کو مومن تھا تو صبح تک کفر کی لپیٹ میں آ جائے گا۔ آپ نے عہد قدیم و جدید کے متعدد فتنوں کا ذکر فرمایا جن میں سے آج الحاد، قادیانیت، غامدیت اور جہلمی فتنہ بڑی سرعت سے ہماری رگ و پے میں سرایت کرتا نظر آتا ہے۔

آپ نے طلباء کو ان جدید فتنوں سے نہ صرف خبردار کیا بلکہ ان کے تدارک کا بھی مختصراً طریقہ کار سمجھایا۔علامہ نعیم الدین الازھری نے فرمایا کہ اسلام نے انسانیت کے سدھارنے کے 3 طریق بتائے ہیں۔ جنھیں قرآن کریم کی سورۃ النحل کی 125 ویں آیت کریمہ میں بیان کیا گیا ہے جہاں اللّٰه رب العزت نے واعظین، خطباء و مشائخ کو یہ درس دیا ہے کہ حکمت و دانائی اور فراست کے ساتھ لوگوں کو اللّٰه کریم کے طریق رحمت کی دعوت دی جائے۔ انسانیت میں ڈھٹائی کے بھی تو درجے ہیں اگر کسی کو حکمت کی سمجھ نہ آئے تو رب کعبہ نے عمدہ نصیحت کا حکم دیا بحث کو تیسرے درجے میں رکھا ساتھ فرما بھی دیا کہ مجادلہ(بحث) تو کرو مگر مجادلہ ان کی ذہنی و فکری صلاحیتوں کے مطابق احسن انداز میں کرو ایسا نہ ہو کہ وہ تم سے بھاگ جائیں۔ آج مجموعی طور پر ہمارے واعظین و خطباء کا حال یہ ہو چکا ہے کہ ہر فرد دوسرے فرد پر ہر گروہ دوسرے گروہ پر ذاتی و مسلکی و گروہی تعصب کی بنا پر کفر کے فتوے لگا رہا ہے۔

فروعی اختلافات کی وہ گتھیاں جو اہل خانہ نے اپنی چاردیواری میں سلجھانا تھیں انھیں اسٹیجز کی بحث بنا کر تشدد کو ہوا دی گئی۔ اور ہم اتنے حصوں میں بٹ گئے کہ ہم نے مجتمع ہو کر جن بین الاقوامی عصبیتوں کا خاتمہ کرنا تھا وہ جوں کی توں ہی رہیں مگر ہم منتشر ہو گئے نتیجتاً علم، عمل اور علماء سب کچھ ہم سے عنقاء ہو گیا۔معاً بعد آپ نے ملحدین کے اسلوب اعتراض کو مفصل انداز میں ذکر کیا گیا۔ اس ضمن میں یہ حیرت انگیز بات سننے کو ملی کہ ہماری نئی جنریشن اور نوجوان نسل اس فتنے کی لپیٹ میں آ رہی ہے۔ جس کا سبب دین سے عدم واقفیت اور علماء سے دوری ہے۔ ہمارا تعلیمی نظام بھی اس حوالے سے انتہائی ناقص ہے طلباء کی ذہنی و فکری بالیدگی کو اس نظام اور نصاب نے آسودگی سے بدل دیا ہے نتیجتاً آج کا جدید ذہن الحاد کی زد میں آ رہا ہے۔

قبلہ استاذی المکرم نے آخر میں طلباء و علماء کو یہ نصیحت فرمائی کہ آج کے اس پرفتن دور میں ان مسائل کو موضوع بحث بنانے کی قطعاً حاجت نہیں جو ختم ہو چکے ہیں جن کا ماحصل کچھ نہیں۔ بلکہ ان فتنوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے جو امت مسلمہ کو تباہی کی دہانے تک پہنچانے کو پر تول رہے ہیں۔انہوں نے قرآن کریم کی ایک آیت کریمہ کی روشنی میں یہ بھی بیان فرمایا کہ اللہ رب العزت کااہل اسلام کو حکم ہے کہ جہاں دین اور مقدساتِ دین کا انکار کیا جا رہا ہو ایسی مجلس میں نہ بیٹھیں اور ایسی صحبتوں سے گریز کریں وگرنہ ان کے عقائد بھی خراب ہو جائیں گے . ہاں اگر فتنہ کی سرکوبی کے لیے تیاری اور علمی پختگی ہو تو تب اصلاح کی نیت سے ضرور معترضین سے بات کرنی چاہیے ۔

ان دونوں نشستوں میں علامہ ثاقب شریف صاحب الازہری اور قبلہ نعیم الدین صاحب الازہری نے نا صرف سیر حاصل گفتگو و راہنمائی فرمائی بلکہ چیدہ چیدہ مگر انتہائی اہم کتابوں اور ان کے مصنفین کا بھی ذکر فرمایا۔ تاکہ طلباء خود سے اپنے مطالعہ کو وسعت دیں۔ اور ان موضوعات پر تیاری کریں۔ یہ دونوں لیکچرز تقریباً ڈیڑھ گھنٹے کے دورانیے پر مشتمل تھے مگر دونوں اپنی جامعیت کے اعتبار سے کئی دنوں کی محنت کا ثمر تھے۔ مالک کریم آستان ضیاءالامت اور آپ کے تمام متوسلین و خدام کو تاابد علم دوست رکھے اور اس گلستان کو ہمیشہ ثمر بار رکھے ، آمین یارب العالمین۔

جواب چھوڑ دیں