آزادی کے تہتر سالوں کا ایک لمبا سفر طے کر کے آج ہم اس آزاد سر زمین پر سانس لے رہے ہیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کیا ہم واقعی آزاد ہیں ؟
آزادی گو کہ ایک بڑی نعمت ہے لیکن کیا ہم نے اس نعمت کی قدر کی یا کم از کم ہم نے آزادی کے تصور کو ہی سمجھا۔آج سے اتنے سالوں پہلے ایسی کیا چیز تھی جس نے ہمارے بزرگوں کو اس بات پر آمادہ کیا کہ اب بر صغیر پاک و ہند کا ایک ساتھ قیام ممکن نہیں اور ایک علیحدہ سر زمین حاصل کرنے کا خیال پیش کیا گیا۔سوالات کا سلسلہ یہیں نہیں تھمتا بلکہ کیا یہ نظریہ اتنا مضبوط تھا کہ لوگوں نے جانوں،مالوں اور سب سے اہم عزتوں تک کی بازی لگا دی ؟
آپ نے بہت سے دل دہلا دینے والے واقعات سنے ہونگے جس میں ہندو مسّلم فساد ،سکھ مسّلم فساد، چلتی ریل گاڑی کو آگ لگا دینا اور نا جانے کتنے ہی ایسے فسانے ہم ہر سال سنتے اور بھلا دیتے ہیں.
یہ داستان شروع وہاں سے ہوتی ہے جب ہم غفلت کی نیند سو گئے اور جب ذرا ہوش سمبھالا تو نظر آیا کہ ہمارے تمام تر اختیارات انگریزوں کے ہاتھ لگ چکے ہیں ،اور جو تھوڑے بہت باقی ہیں وہ ہندؤں کہ پاس ہیں ۔مسلمان مکمل طور پر خالی ہاتھ اور خالی دامن نظر آتے تھے پھر چاہے بات نوکری کی ہو یا نمازکی یا آزادی رائے کا حق ہو ۔بچا ہمارے پاس کچھ نہیں تھا اور قسم پرسی کا ڈور ڈورا تھا۔ایسے میں کچھ زہین لوگ معملے کو بھانپ گئے اور تحریروں،تقریروں اور تحریکوں سے جدوجہد شروع کی ۔آغاز سفر میں کافی مشکلات تھیں مخالفین کو چھوڑیں اپنے بھی ساتھ دینے کو تیار نہ تھے لیکن جب ارادے پختہ ہوں اور نظر جن کی خدا پر ہو ،طلاطم خیز موجوں سے وہ گھبرایا نہیں کرتے لیکن آخر وہ بات تھی کیا جس نے اس بڑی جدوجہد کا آغاز کیا ؟
انسان ہمیشہ چاہتا ہے کہ اسکی رائے کی اہمیت ہو اسکے نظریات کو سمجھا جائے ،آزادی رائے،سوچ ،فکر ،لباس ،مذہب ،عقائد گو کہ ہر بات اور خیال میں اسکی اپنی مرضی اور رضا ہو۔
پاکستان وہ واحد ملک ہے جسکی ولدیت اسلام ہے مختلف رنگ ،زبان اور نسل کے لوگوں کو یکجا کرنے والا نعرہ “پاکستان کا مطلب کیا لا الہٰ الا اللہ ” ہی وہ نظریہ ہے جو اس پاک دھرتی کے وجود کا ضامن ہے ۔
لیکن ہم نے کیا کیا ؟ جس آزادی کے لیا اس قدر جدوجہد کی آج اسی آزادی کو تمسخر اور مذاق بنا دیا آزادی کے لیے جو جان فشانی کر کے آئے تھے اسکو نظر انداز کردیا ۔اپنے نظریات کو محدود کردیا ،تنگ نظری میں گرفتار ہوگئے ،آزادی رائے سے خود کو دور کردیا کر دیا ۔”اسلامی جمہوریہ پاکستان “کو آج اسلام سے محروم کر دیا ۔جس مذہب کو بچا کر لاۓ تھے آج اسے فرقوں میں قید کر دیا۔ ذاتی مفاد کو پس پشت چھوڑ کر اجتماعی مفاد کو فوقیت دی تھی آج دوبارہ ذاتی مفادات کو سر فہرست لکھ دیا ۔جن فرسودہ رسومات کو چھوڑ آئے تھے انکا دامن دوبارہ تھام لیا ۔اپنی پہچان اور اپنے نام کی بقا کی جنگ لڑی تھی آج اپنے نام اور پہچان سب کو چھوڑ کر کسی اور دیس میں بسنے کا ارادہ کر لیا۔
میں نے بہت بار سوچا ہے کہ کیا ہم آزاد ہیں؟لیکن ہر بار یہی صدا آئی ہے کہ ہم دوسروں کے نظریات ،رسومات ،خیالات سے خود کو آزاد ہی نہیں کر پائے ۔اپنی شناخت کی جدوجہد تو آج بھی جاری ہے ۔دعا ہے کہ کاش ایک دن ہم خود کو ان بیڑیوں سے آزاد کر لیں۔
سایہ خداے ذوالجلال
پاکستان زندباد