صراحی سر نگوں ہو کر بھرا کرتی ہے پیمانہ

 کسی کہنے والے نے  کوئی شعر، کوئی جملہ  کسی چیز کو سامنے رکھتے ہوئے کسی زمانے میں کہا ہوتا ہے۔ کہ شاعر کے تصور میں کوئی تصویر ہوتی ہے۔ پھر وہی الفاظ اس شخص کے درد کو اپنی آغوش میں لیے صدیوں باقی رہتے ہیں۔ کہنے والا کسی چیز کو سمجھانے کی کوشش کررہا ہوتا ہے، جبکہ سننے یا پڑھنے والا اس کے ظاہری الفاظ کی ترتیب اور چناؤ سے متاثر ہو کر پرزور داد  کو ان کی قیمت سمجھتے ہوئے ان پر سے گزر جاتا ہے۔ لیکن شاید صرف داد دینا ان الفاظ کی قیمت نہیں ہوتی۔

 کبھی  اس طرح کی قیمتی باتیں تو ہمیں ڈھونڈے سے نہیں ملتیں، بھلا ہو ان ٹرک ڈرائیوروں کا جو اپنی گاڑی پر کسی شخص کے کسی قول کو لئے شہر شہر،گاؤں گاؤں چلے جاتے ہیں۔ آپ نے بھی سڑکوں پر گزرتے ہوئے بہت سے ٹرک دیکھے ہوں گے جن کے پیچھے کبھی تو اپنی نوعیت کا کوئی جملہ درج ہوتا ہے، لیکن کبھی بہت اچھی اور قیمتی بات درج ہوتی ہے۔ ہمیں اس بات کی تحقیق کی ضرورت نہیں کہ آیا کہ یہ جملہ اس نے سوچ سمجھ کر لکھا ہے یا وہ بھی صرف الفاظ کے چناؤ اور ترتیب سے متاثر ہو کر اس بات کو لکھ لیتا ہے، لیکن اتنی بات ضرور ہے کہ وہ لکھا جملہ لکھنے والے کے رجحان کو ضرور بیان کر جاتا ہے۔

  اسی طرح کا ایک شعر کئی دنوں سے ایک روڈ کے کنارے پڑی ایک  متاثرہ گاڑی  کی ایک سائیڈ پر درج تھا، بہت دفعہ اس کے پاس سے گزر ہوا، پہلے پہل تو ان الفاظ کی ترتیب بڑی اچھی لگی، لیکن کئی دفعہ کے گزرنے نے اس شعر نے ہمارے دماغ میں جگہ کرلی یعنی وہ ہمیں یاد ہوگئے۔ لیکن ابھی بھی اس کا مقصد پورا نہیں ہوا تھا، کیوں کہ وہ دل میں اتر کر جان میں سما جانا چاہتا تھا، وہ مجھے کچھ سمجھا رہاتھا، لیکن میں اس بات پر مصر رہا کہ میں کچھ نہیں سمجھ سکتا۔ جب بھی اس پر میری نظر پڑتی تو میں ایک یا دو دفعہ اس کو ضرور پڑھ لیتا۔ لیکن پھر بھی نہ سمجھا کہ یہ الفاظ کا چھوٹا سا مجموعہ آخر مجھ سے کیا التجا کر رہا ہے۔ خیر میں ادھر سے گزر جاتا۔

لیکن ایک دن اچانک اس جملے نے مجھے جنجھوڑا، وہ مجھے کسی بہت  بڑی برائی سے روک رہا تھا۔ وہ مجھے کسی اچھی عادت کی طرف دعوت دے رہا تھا۔ لیکن میں ان بے زبان الفاظ کی پکار کو نہ سن سکا، میں ان بے جان الفاظ کو نظر انداز کرتا رہا، لیکن ان چند لفظوںمیں  بہت  بڑی کامیابی کی کنجیاں ودیعت رکھی گئیں تھی۔ میں نے ان مرتب الفاظ کے پیش نظر انسانی تاریخ پر نظر ڈالی تو وہ جملہ ہر جگہ  درست ثابت ہو رہا تھا۔  میں نے کامیاب لوگوں کو دیکھا تو  مجھے ان کے گرد بھی وہی جملہ  منڈلاتا نظر آیا، میں نے زمین کے ستاروں کو دیکھا تو ان کی روشنی کا سبب بھی وہی  مجموعہ  تھا۔   پھر ہمیں جستجو پیدا ہوئی کہ الفاظ کا یہ مجموعہ  جو گہرے احساسات کی ترجمانی کرتا ہے  کس نےمرتب کیا  تو حیدر علی آتش کا نام ہمیں  ان الفاظ کے ساتھ نظر آیا۔ وہ الفاظ کا مجموعہ  ان کا ایک اعلی  شعر تھا۔

جو اعلی ظرف ہوتے ہیں ہمیشہ جھک کے ملتے ہیں

صراحی سرنگوں ہو کر بھرا کرتی ہے پیمانہ

میں نے  دیکھا کہ وہ جملہ جس بات کا درس دے رہا  ہے کیا کسی نے اسے اپنایا بھی ہےیا نہیں؟ تو حقائق کے پیش نظر جو نتائج سامنے آئے وہ بھی قابل ذکر تھے۔ کہ بہت سے لوگ صرف ان الفاظ کی ترتیب ہی کو پسند کرنےوالے تھے۔ لیکن تب ہمارے پاؤں تلے سے زمیں نکل گئی جب سب سے  پہلے ان لوگوں کی صفوں میں خود پر ہی نظر پڑی ۔پھر چونکہ دنیا ہمارے لحاظ سے بہت بڑی ہے تو دیکھتے ہی دیکھتے ان صفوں میں اضافہ ہو تا گیا، بہت سے حکمران بھی نظر آئے، بہت سے بڑے عہدیدار بھی ،بڑے بڑے علم  کے سمندر بھی ، بہت سے دانش ور، لکھاری ،مقرر، مناظر، پروفیسر، بہت سے شہرت یافتہ بھی نظر آئے، بہت سے عاجز بھی نظر آئے  اور یہاں تک کہ بہت سے فقیر بھی نظر آئے غرض ایک طویل فہرست تھی اور  تاحد نگاہ نوع نوع کے لوگ تھے۔ تب ہمیں  یہ احساس ہوا  الفاظ کی قیمت داد و دہش ہی ہوتی تو ان الفاظ پر سے یوں ہی گزر جانے والوں صفیں اتنی طویل نہ ہوتیں۔

جواب چھوڑ دیں