مر جائیں گے ایمان کا سودا نہ کریں گے

“ابیحہ پتا چلا بم دھماکے کا؟ …..” امی نے مجھے جاگتے ہوئے دیکھا تو اطلاع دی. ….”جی امی دوست نے بتایا تھا. لبنان کے حملوں کا ناں!؟ مجھے تو سچ میں لگتا ہے کہ یہ اسرائیل نے کیا ہے…”میں شاید ابھی اور بھی بہت کچھ بولتی لیکن امی نے بات کاٹ کر جو اطلاع دی وہ سن کر میں تو ساکت رہ گئی. “کیا کہہ رہی ہیں امی… ریلی کے دوران حملہ، اپنی ریلی.. میرا مطلب جماعتِ اسلامی کی ریلی میں!؟”

اتفاقاً میرے گھر سے بابا یا بھائی کوئی نہیں گیا تھا. ورنہ ہمیں بھی بروقت اطلاع ملتی وہ تو فیسبک کا بھلا ہو جو ہر اہم، غیر اہم بات ہم تک پہنچا دیتا ہے. خیر بات آئی گئی ہو گئی. البتہ افسوس بہت ہوا تھا نماز کے بعد لبنانیوں کے ساتھ ساتھ جماعت اسلامی کی استقامت اور زخمیوں کے لیئے بھی صحتیابی کی دعائیں کیں.

اگلے دن امی کے ساتھ حافظ نعیم الرحمن صاحب کا خطاب سنا جب وہ حملے کے بعد ریلی کے شرکاء سے مخاطب تھے. ان کا جذبہ، ان کا حوصلہ قابل دید تھا. چند لمحے لگے تھے مجھے… یہ یقین کرنے میں کہ آج بھی لوگوں کے دنوں میں شوق شہادت زندہ ہے. آج بھی ہم میں سے کسی کے پاس جذبہ جہاد ہے. آج کے دور میں جب لوگ اپنے سگے بھائیوں سے لڑ پڑتے ہیں، کوئی ایسا بھی ہے جو اپنا تن من دھن سب اپنے کشمیری بھائی بہنوں کے لیئے قربان کرنے کو تیار بیٹھا ہے اور وہ بھی تنہا نہیں… عوام کے ساتھ ہزاروں لوگوں کے ساتھ…!!!

الجھاد الجھاد کے نعرے بھی جوش و ولولے سے بھرپور تھے. ایسے میں نعیم الرحمن انکل کی ایمان افروز تقریر… پولیس یا رینجرز کو تنگ نہ کرنے کی تلقین… دکانوں سے دور رہنے کا حکم… اور ریلی جاری رکھنے کی ہدایت… کیا یہ بہادری کی شناخت نہیں!؟ کیا اسے شیر دلی کی علامت نہیں کہتے!؟ کیا یہی کشمیریوں سے ہکجہتی کا اظہار نہیں!؟ کیا یہ بھارت کے لئے دھمکی کی مانند نہیں!؟ کیا آج کے دور میں ایسا پختہ ایمان ہونا عام سی بات ہے!؟

ہر گز نہیں!!!! نعیم صاحب نے شرکاء کی ہمت بندھاتے ہوئے انہیں یاد دلایا: “کشمیریوں کی آزادی کی اس تحریک میں ہم سوچا کرتے تھے کہ وہ تو قربانیاں دے رہے ہیں وہ خون بہا رہے ہیں اور ہم صرف جلوس نکالتے ہیں نعرے لگاتے ہیں. لیکن آج بہارتی ایجنڈوں نے اس خون میں ہمارے خون کو ملا دیا ہے. میں آپ کو مبارکباد پیش کرتا ہوں!!!” …اے خدا !! کیا آج بھی ایسا ایمان موجود ہے،ایسے ایمان والے موجود ہیں جو زخمیوں کو مبارک باد پیش کرتے ہوں… جو علی الاعلان اپنے دشمنوں کو للکارتے ہوں  یہ جانتے ہوئے بھی کہ وہ تنہا ہیں کوئی دشمنوں کے مقابلے میں ان کا مددگار نہ ہوگا… لیکن کیوں نہیں ہوگا اے اللہ!! آپ تو ہوں گے. وہ تو آپ پر توکل کرتے ہیں. وہ تو سر عام کہتے ہیں کہ:

“ہم اللہ کے ہیں،ہماری جانیں اللہ کی ہیں اور ہمیں اللہ ہی کی طرف لوٹنا ہے.” (حافظ نعیم الرحمن)….پھر محترم اسامہ رضی نے مائیک سنبھالا. اس حملے کو بزدلانہ کاروائی اور بھارتی ایجنٹوں کو بزدل کہا… سب کے سامنے… بغیر کسی خوف کے… یہ سوچے سمجھے بغیر کہ ان کے الفاظ محفوظ ہو رہے ہیں، ریکارڈ ہو رہے ہیں۔ اسامہ صاحب نے بھی پر امن طریقہ سے ریلی جاری رکھنے کی ہدایت دی۔

مجھے بے ساختہ یاد آیا کہ پہلے ایک بار یکجہتی کشمیر مارچ جو جماعت اسلامی کے زیر اہتمام ہوا تھا تب بھی تیز موسلا دھار بارش کے باعث ریلی رکنے کا امکان تھا. لیکن اس وقت بھی کراچی والوں نے بنا ڈرے مارچ جاری رکھا. لیڈر بھی ایسے کہ بارش ہو یا بم ھماکہ ڈٹے رہے ،کشمیری بھائی بہنوں کے لیئے اللہ کی زمین پر اللہ کا نظام نافذ کرنے کے لیئے دشمنان دین کو پسپا کرنے کے لیئے. یہ ہوتی ہے محبت…… اللہ سے اللہ کے دین سے اللہ کے بندوں سے!! یہ ہوتا ہے جذبہ دین کی خاطر جان دے دینا کا۔

بہر حال… ویڈیو دیکھنے کے بعد نیچے کمنٹس پڑھنے شروع کیئے اور دھک سے رہ گئی. بے شمار لوگوں نے اپنے تبصروں میں ریلی کے شرکاء کو بے وقوف اور کم عقل ثابت کرنے کی کوشش کی کہ انہیں بھارت کے خلاف کھڑا ہی نہیں ہونا چاہئے تھا. کچھ نے یوں بھی ظاہر کیا کہ انہیں اس حملہ کے بارے میں کچھ نہیں معلوم جماعت اسلامی خواہ مخواہ بات کا بتنگڑ بنا رہی ہے… …تو میرا خیال ہے کہ یہ ممکن ہے کہ بیشتر افراد کو اس حملے کا علم نہ ہو کیوں کہ ہمارے ملک میں تو جب عام افراد اور حکومت کو اپنی طرف متوجہ کرانا ہوتا ہے تو ہنگامہ کیا جاتا ہے۔

جب کسی ایک کو اپنی تکلیف کا احساس دلانا ہوتا ہے تو دوسرے کو اذیت پہنچائی جاتی ہے. تو لوگ کیسے مطلع ہوتے حملے کے بارے میں جب کوئی اطلاع دینے والا بھی نہ تھا کیونکہ یہاں تو کسی نے دکانیں بند نہیں کروائیں، کسی نے پولیس یا رینجرز کو نہیں ستایا، شہر کے کسی حصہ کو بھی آگ نہیں لگائی گئی کسی نے بھی میڈیا میں شور نہیں مچایا تھا ہاں البتہ حکومتی عہد داروں کو ان کی ذمہ داری کا احساس ضرور دلایا گیا.

میرے نزدیک یہ ایک بڑا سانحہ ہے. چالیس افراد کا حملے کی زد میں آنا یقیناً غیر معلومی بات ہے لیکن شاید صرف ان کے لیئے جن کے باپ بھائی بیٹے زخمیوں میں شامل ہوں یا پھر زیادہ سے زیادہ عوام کے لیئے کیونکہ اس ملک میں تو انسانی جانوں کی قدر نہیں.. جینا مرنا عام سی بات ہے… کوئی بہارتی ایجنڈوں کے خلاف کھڑا ہونے والا نہیں… جس ملک میں مسافر بردار جہاز گرجانے اور سو لوگوں کے جان بحق ہو جانے کے باوجود حکومت کی طرف سے تعزیت سے زیادہ اور کچھ نہیں کیا گیا…… پھر یہ تو صرف چالیس افراد تھے وہ بھی تنظیم سے منسلک۔

اب ضرورت ہے اللہ تعالی سے اس ملک میں بہترین قیادت کے لئے دعائیں کرنے کی دین کا ساتھ دینے کی اپنی اپنی مد میں جہاد کرنے کی ایمان کو مضبوط کرنے کی اور کشمیریوں کے لئے دعا گو ہونے کی… اگر اسی طرح کی جہادی تحریکیں دنیا بھر میں کام کرتی رہیں تو ایک دن دنیا کے تمام مقبوضہ مسلمان چین کا سانس لے سکیں گے… کشمیر کو بھی اس ہی طرح ہم ایک روز اپنے جذبہ جہاد سے پاکستان کا حصہ بنا لیں گے….. انشاء اللہ تعالیٰ۔

جواب چھوڑ دیں