“آہ یہ میڈیا”

فیس بک استعمال کرتے ہوایک ڈرامے کا ٹیزر مستقل آنکھوں کے سامنے آ رہا تھا۔ خیال آیا کہ ذرا دیکھوں اب انڈسٹری نے کونسا نیا پیکج تیار کیا ہے بے حیائی کا۔ ڈرامے کا ٹیزر دیکھنے پر سب سے پہلا سوال دماغ میں آیا کہ یہ کونسا معاشرا ہے جس کی عکاسی کی جا رہی ہے؟ کیونکہ میڈیا تو یہی دعویٰ کرتا ہے کہ بھئ ہم تو وہ دکھا رہے ہیں جو معاشرے میں ہو رہا ہے۔ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں وہاں نا تو میں نے کوئی اس طرح کی چیز دیکھی نا کبھی سنی، البتہ کبھی وہم و گمان میں بھی نہیں آئی۔ لگتا ہے کا کوئی خفیہ معاشرا ہے، جہاں اس طرح کی برائیاں سرزد ہوتی ہوگی اور پھر اسے اسکرین پر نشر کیا جاتا ہوگا، یا ہم صمم بکمم بنے بیٹھے ہیں۔

بالفرض معاشرے میں اس طرح کی برائی ہو بھی رہی ہے تو اسے اتنا پھیلانے کی کیا ضرورت ہے؟ کیا میڈیا لوگوں کو طریقے سکھا رہا ہے؟ اس بات کا تو معاشرا خود گواہ ہے کہ جب جب میڈیا نے کسی چیز کو خوب نشر کیا ہے وہ چیز معاشرے میں کھل کر سامنے آئی ہے، چائلڈ ابیوز پر جب سے ڈرامے دکھائے گئے ہیں تو یہ چیز زیادہ نظر آنے لگی ہے۔ آئے دن اسی کی خبر سامنے ہوتی ہے۔ لوگوں کو آگہی دینے کے اور بھی طریقے ہیں تو اسے بہانہ نا بنایا جائے۔ کہ ہم لوگوں کو اس بات کی آگہی دے رہے ہیں۔

اس وقت ڈراموں کو سب سے زیادہ جن کی توجہ حاصل ہے وہ نوجوان نسل ہے۔ اور میڈیا کتنی چالاکی سے ان کی ذہن سازی کر رہا ہے، اس سے تو کوئی انکاری نہیں؟. اگر ہم چھوٹے بچے کی مثال لیں کہ وہ ایک بسکٹ کا ایڈ دیکھتا ہے، پھر ماں باپ سے ضد کرکے وہ لیتا ہے اور بالکل أسی انداز میں کھاتا ہے جیسے ایڈ میں دکھایا گیا تھا۔ پہلے ٹوئیسٹ کرو، پھر لک کرو، پھر ڈپ کرو۔ بہت سے بچوں کو تو میں نے خود دیکھا ہے، یہاں تک کہ اگر أن کے پاس دودھ نہیں ہے تو وہ پانی میں ڈپ کر لیتے ہیں۔ میڈیا ہمارا ذہن بناتا ہے، اب جب نوجوان نسل اکثریت میں اس طرح کے ڈرامے دیکھے گی جو ہمارے اخلاقیات، معاشرت مذہب کے تقدس کو پامال کر رہے ہیں تو أن کا ذہن کس سمت میں جائے گا؟ جب وہ ایک منفی ڈبے میں بند رہے گے تو مثبت ماحول میں سانس کیسے لیں گے؟.

ڈرامے کا ٹیزر دیکھ کر اور اس کے بارے میں لوگوں کی رائے پڑھ کر معلوم ہوا کہ یہ کوئی دو بہنوں کی کہانی ہے۔ جس میں بڑی بہن کی شادی ہو جاتی ہے اور چھوٹی بہن أس سے جل رہی ہے، بڑی بہن کے شوہر کو حاصل کرنے کے لیے سازشیں کر رہی ہے۔ اکثریت اس ڈرامے کو ناپسند کر رہی ہے، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ ہمارے لوگوں میں شعور موجود ہے۔اس طرح کی کہانی کو اسکرین پر دکھا کر سب سے پہلے تو آپ نے لوگوں کی حیا کو متاثر کیا، جن لوگوں کے خیال میں بھی یہ چیز نہیں تھی، آپ نے أن کے ذہنوں میں ڈال دیا کہ جی دیکھیں معاشرے میں ایسا ہوتا ہے۔ آپ نے یہ دکھا کر ایک ادب و احترام والا بہن بہنوئی کے رشتے کی توہین کی ہے۔ آپ لوگوں کو أن کی زندگیوں میں شک میں مبتلا کر رہے ہیں۔ اور اگر دل میں شک کا بیج پیدا ہوگیا تو کون ایک دوسرے پر بھروسہ کرے گا؟. جناب معاشرے میں یہ برائی نہیں تھی کہ بہن اپنی بہن کا گھر توڑنے پر تلی ہے، آپ یہ دکھا کر پیدا کر رہے ہیں۔ برائی دیکھتے دیکھتے ایک وقت ایسا آ جاتا ہے کہ آپ کو وہ برائی بری لگنا ہی بند ہو جاتی ہے۔

جب بھی آپ پر تنقید کی گئ آپ نے انہی جوابات کا سہارا لیا، کہ ہم تو صرف معاشرے کی عکاسی کر رہے ہیں، ہم لوگوں کو شعور دے رہے ہیں، ہم تو انٹرٹینمنٹ فراہم کر رہے ہیں یہی تو لوگ چاہتے ہیں ہم سے۔ تو جناب نا تو ہم ایسے معاشرے میں رہتے ہیں جہاں یہ سب ہو رہا ہو، اور اگر سو گھروں میں سے کسی ایک گھر میں ایسی برائی ہے تو آپ اسے نشر کرکے باقی کے ننانوے گھروں میں بھی پیدا کرنا چاہتے ہیں؟. نا ہمیں انٹرٹینمنٹ کے نام پر بے حیائی اور فحاشی دیکھنی ہے، نا تو ہمیں رشتوں کے تقدس پامال ہوتے دیکھنے ہیں۔ کم از کم کوئی شریف مسلمان تو اس طرح کی چیزیں پسند نہیں کرتا، باقی جو پسند کر رہے ہیں أن کا تذکرہ کرنا بھی وقت کا ضیاء ہے۔

میری لوگوں سے درخواست ہے کہ اس طرح کے ڈراموں کا بائیکاٹ کریں۔ خود بھی نا دیکھیں اپنے جوان بچوں کو بھی روکیں، یہ ایسی ذہن سازی ہو رہی ہے جس کا نقصان ابھی تو نظر نہیں آرہا، لیکن مستقبل میں ہمیں خسارے کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اب تو ہر چیز ٹوئٹر پر ٹرینڈ کر جاتی ہے اس کا صحیح استعمال کرتے ہوئے اس طرح کے ڈراموں کے خلاف ٹرینڈ چلائیں۔ معاشرے میں برائی کو روکنے کے لیے اپنا کچھ حصہ ڈالیں۔ امر بلمعروف کا نہیں تو کم از کم ونہی المنکر کا تو حق ادا کریں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا” تم میں سے جو شخص خلاف شریعت کام دیکھے تو اپنے ہاتھوں سے اس کی اصلاح کرے اور اگر طاقت نہ رکھتا ہو تو زبان سے اس کا رد کرے اور اگر اس کی بھی طاقت نہ رکھتا ہو تو دل سے اس کو برا جانے اور یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے”۔(مسلم)

آپ کے پاس پاور ہے، ٹوئٹر کا استمعال کریں صحیح چیز کے لیے، یا جو بھی میڈیم آپ استعمال کر سکتے ہیں۔ لیکن کریں…… سنیں اب بولنا ضروری ہے۔

جواب چھوڑ دیں