بھارت پیار نہیں مار سے مانتا ہے

کشمیریوں کی جدوجہدِ آزادی ڈھکی چھپی یا کوئ نئ بات نہیں ،جس کا آغاز 1931ء سے ہوا اور تاحال جاری ہے۔ نہ کشمیری غلامی قبول کر رہے ہیں اور نہ بھارت حقیقت تسلیم کر رہا ہے۔13 جولائ 1931ء کو سری نگر سینٹرل جیل کے باہر مظاہرین پر پولیس نے اندھا دھند فائرنگ کی 17 کشمیری شہید ہوئے۔ یوں کشمیریوں کی آزادی کی تحریک کا باقائدہ آغاز ہوا۔

اس تحریک کی حمایت ڈاکٹر محمد اقبال نے کھلے بندوں کی۔مسلم اکثریتی خطہ کے عوام کی رضامندی کے بغیر کشمیر کے حکمران مہاراجہ ہری سنگھ نے 26 اکتوبر 1947ء کو بھارت سے الحاق کا معاہدہ کیا اور 17 اکتوبر 1949ء کو آرٹیکل 370 نافذ کر دیا گیا حلانکہ کہ بھارت کا اپنا آئین اس وقت تیاری کے مراحل میں تھا۔ پھر بعد میں 14 مئ 1954 کو آرٹیکل 35 A لاگو کر دیا گیا۔ بھارت نے ان دونوں آرٹیکل کو اپنے آئین کا حصہ بنایا۔ یہ خطہ ہمیشہ متنازعہ رہا۔ کشمیری اکثریت نے بھارت کے جبر و تسلط سے آزادی ،اپنی سر زمین کا الحاق پاکستان سے چاہا لیکن بھارت نے ہمیشہ اس جدوجہد آزادی کو دبانے کی کوشش کی لیکن اس کے باوجود کسی بھارتی حکمران نے 370 اور 35 A ختم نہیں کیا لیکن موجودہ حکمران نریندر مودی جو مسلمانوں کے معاملے میں متشدد ذہنیت والا مشہور ہے اس نے وزیرِ داخلہ امیت شاہ کی سرگردگی میں اپنے آئین سے دونوں آرٹیکل 370 اور 35 A ختم کر دیا کشمیر کی خصوصی حیثیت بھی ختم کر دی۔ یوں 5 اگست 2019ء کو 80 لاکھ سے زائد آبادی رکھنے والے جموں کشمیر کو متنازع طور پر بانٹ دیا گیا۔ پوری وادی کرفیو لاک ڈاون و فوجی محاصرے کی لپیٹ میں آگئ۔ کشمیری مسلمانوں کی زندگیاں تو پہلے ہی مشکل میں تھیں اب سنگلاخ مشکلات میں پڑ گئیں۔ مساجد سکول دفاتر بازار و کاروباری مراکز بند حتیٰ کہ ہسپتالوں میں بھی سفاک ہندو درندے فوجی وردیاں پہن کر گشت کرنے لگے۔ بیمار گھروں میں مرنے لگے۔ فون اور انٹرنیٹ کی سروس معطل کر دی گئ۔اب تو پوری دنیا کو لاک ڈاون کا تجربہ ہو چکا ہے ۔ ساری سہولیات کے ساتھ بھی لاک ڈاؤن برداشت سے باہر ہے لوگوں کے مالی حالات خراب ہو گئے۔ گھروں میں بند رہ کر لوگ نفسیاتی مریض بننے لگے۔ اندازہ کریں کشمیریوں کے المناک غم کا جہاں دنیا کا طویل ترین لاک ڈاون ہے اور ساتھ فوجی بربریت کا سامنا بھی۔ نہ ان کے نوجوانوں کی جانیں محفوظ ہیں اور نہ ہی بیٹیوں کی عصمت۔ ہندو درندہ جسے چاہے اپنی گولی کا نشانہ بنا سکتا ہے جس گھر کو چاہے جلا سکتا ہے اس سے بڑی المناکی تو یہ ہے کہ بھارت کے اس ظلم و جبر سفاکی و بربریت پر پوری دنیا خاموش ہے۔ سوائے ایک دو ممالک کے کسی نے کشمیریوں کے حق میں آواز نہیں اٹھائی کسی نے بھارت کے ساتھ سخت معاملات کر کے اسے اس ظلم کا احساس نہیں دلایا۔ جو ممالک انسانی حقوق کے علمبردار بنے پھرتے ہیں کشمیر کے معاملے میں انہوں نے بھی اپنے اوپر سکوت طاری کر لیا۔ انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں نے بھی شاید کشمیری مسلمانوں کو انسانوں کی لسٹ سے نکال دیا اور ان کی حالت و زار سے اپنی آنکھیں بند کر لیں۔لیکن مجھے شکوہ تو عالمِ اسلام سے ہے کیا یہ اپنے نبی صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کو نہیں مانتے؟ جنہوں نے فرمایا کہ روئے زمین کے تمام مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں اگر ایک حصہ تکلیف میں ہے تو سارا جسم مضطرب ہو گا۔عالمِ اسلام کے مسلمان مظلوم مسلمانوں کے بارے میں محسوس کرتا اضطراب سے ہی اپنے اپنے ایمان کی کیفیت کا بھی اندازہ لگا سکتے ہیں۔کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے۔ بھارت نے ہماری شہ رگ پر ہاتھ رکھا ہے اس ظالم ہاتھ کو کاٹ ڈالنا ہمارا فرض ہے کیونکہ یہ بھارت کی فطرت ہے کہ اگر ہم اس کے سامنے نرم پڑیں گے تو یہ زیادہ دست درازی کرے گا یہ بات سمجھانے کے لیے میں ماضی کی ایک چھوٹی سی مثال دوں گی۔1978ءکے اوائل میں بھارت نے جنگی ارادے سے پاکستانی سرحدوں کے ساتھ اپنی فوجیں لگا رکھی تھیں۔انہی دنوں جےپور میں پاکستان اور بھارت کے درمیان کرکٹ میچ تھا۔ جنرل ضیاء الحق بھارت میچ دیکھنے کے بہانے گیا۔ پر سکون ہو کر میچ دیکھا۔ واپسی پر روانگی سے قبل بھارت کے اس وقت کے وزیراعظم راجیو گاندھی سے الوداعی ملاقات میں گاندھی کے قریب جا کر کہا۔ مسٹر راجیو آپ پاکستان پر حملہ کرنا چاہتے ہیں تو ایسا کرو۔ لیکن یہ بات ذہن میں رکھیں کہ یہ دنیا ہلاکوخان اور چنگیز خان کو بھول جائے گی اور صرف ضیاء الحق اور راجیو گاندھی کو ہی یاد رکھے گی۔ کیونکہ یہ روایتی جنگ نہیں بلکہ ایٹمی جنگ ہو گی اس صورت حال میں پاکستان مکمل طور پر تباہ ہو سکتا ہے لیکن مسلمان اب بھی دنیا میں موجود ہوں گے لیکن ہندوستان کی تباہی کے ساتھ ہی ہندومت اس زمین کے چہرے سے مٹ جائے گی۔ جنرل نے اپنے چہرے پر سخت تناؤ پیدا کر کے راجیو گاندھی کو یہ بات کہی اور اس بات کی راجیو اور اس کا مشیر خصوصی ہی سن سکا۔ راجیو گاندھی کو اندر تک ہلا کر اور سکتے کی کیفیت میں چھوڑ کر جنرل ضیاء الحق ہنستے مسکراتے وطن واپس آ گیا۔ ضیاء الحق کی واپسی سے پہلے ہی بھارت نے اپنی افواج سرحدوں سے واپس بلا لیں اور یوں یہ جنگ ٹل گئی۔ موجودہ قیادت بھی اپنے دلوں میں بسی بزدلی نکال کر مسلم مجاہد والی دلیری پیدا کر کے بزور شمشیر کشمیر کے حق کے لیے کھڑی ہو جائے۔ ان شاءاللہ غاصب کمزور گیدڑ بھاگ کھڑے ہوں گے کیونکہ بھارت پیار کی نہیں مار کی زبان سمجھتا ہے۔

جواب چھوڑ دیں