کچھ مسافتیں ایسی بھی

زندگی مشکل تو ہے ہی پر اتنی کٹھن ہو گی سوچا نہ تھا۔ زندگی میں بھی ایسی ایسی مسافتیں آتی ہیں کہ انسان سے ہر چیز روٹھ جاتی ہے۔ اورانسان حیران ہوتا ہے کہ جن کے دل سے وہ قریب تھا _ان سے واسطہ ٹوٹا تو کیسے،رابطہ چھوٹا تو کیسے،تعلق کمزور تھے،یا ہم ہی بھلا دینے کے قابل تھے_یہ سارے سوال ہی سرگرداں رہتے ہیں۔ ایک سخت جنگ چھڑی رہتی ہے دل و دماغ میں،پر ایسی جنگیں لڑنی ہی پڑتی ہیں۔ آپ ان راستوں سے آشنا نا بھی ہونا چاہیں،آپکو ہونا ہی پڑتا ہے۔

کتنی دفعہ آپ ٹوٹے خود کو سمیٹتے سمیٹتے کس کو خبر؟آپ اہم نہیں رہے اس آگہی کاعذاب کیسے جھیلا کس کو خبر؟ ان پرخار راستوں کی مسافتیں آپ نے کیسے طے کی کسے خبر؟ پر اصولِ زندگی یہی ہے_جن کے لیۓ آپ اہم ہیں اور آپ تا حیات اہم رہیں گے،تو یہ آپکے وہم ہیں_ اوران وہموں کی وجہ سے ہی تو مشکل ہوتی ہے_انسان ٹوٹ جاتا ہے_منزلیں تھک جاتی ہیں،مسافتیں رک جاتی ہیں_اور انسان وہی کہیں بس بیچ میں اٹک جاتا ہے_وہ جان ہی نہیں پاتا جن سے اسکی توقعات تھیں ،وہ آگے بڑھ چکے_سب کچھ پسِ پشت ڈال کر زندگی جی رہے ہیں_

وہ توقعات پوری نہیں کر سکے یہ انکی غلطی نہیں_غلطی آپکی ہے_اور پھرخود کی بکھری ٹوٹی کرچیاں خود ہی تو سمیٹنی پڑتی ہیں_یہ روح چیردینے والی اذیت ہے_پرآگےبڑھنے کے لۓ برداشت کرنی پڑتی ہے_ ہر وہ زخم جو لگا ہوا ہے،اسے خود پیوند لگانا بھی اذیت ہے_پرایسے کام تو خود ہی کرنے پڑتے ہیں_ توقعات جب آپ نے رکھی تھیں تو انکا ٹوٹنا اورآپ کا بکھرنا یقینی تھا اور پھر کوئی کیوں رکھے خیال کہ آپ کو ٹھیس پہنچے گی_کوئی کیوں رکھے خیال کہ آپ کے دل میں ٹیس اٹھے گی_

اور جو زخم اب آپکو آۓ ہیں_تو سمیٹیں خود کو،لگاۓ پیوند اپنی پھٹی ہوئی روح کو اور بڑھ جائیں آگے _زندگی کی نعمتوں سے مزہ لیجۓ_زندگی کے حسیں نظاروں سے راحت حاصل کریں_ آپ کو بیچ راہ میں چھوڑ جانے والے بھی ہزاروں ہو گے_منظر سے غائب ہونے پر بھلا دینے والے بھی کئی ہوں گے_

تو یاد رکھیں،زندگی پرخار ہے_اسکی منزلیں مسافتیں ایسی ہی ٹیڑھی میڑھی ہیں_پرجوتوقعات آپ وابستہ کر رہے ہیں_وہ آپ کو توڑنے کے سوا کچھ نہیں کرسکتیں_رشتے کمزور کرنے کا سبب بن سکتی ہیں_آپکا دل میلا اور روح زخمی کر سکتی ہیں۔ اس کے علاوہ توقعات آپ سے کوئی بھلائی نہیں کر سکتیں۔

1 تبصرہ

جواب چھوڑ دیں