جمہوری رویے اور انسانی جانوں کا تحفظ

دنیا میں نوول کورونا وائرس کے حوالے سے موجودہ صورتحال قدرے گمبھیر اور پیچیدہ ہوتی جا رہی ہے ۔اکثر ممالک ایسے بھی ہیں جہاں وبا پر موئثر طور پر قابو پا لیا گیا تھا مگر  بعد میں اچانک نئے کیسوں کی تعداد میں یکدم اضافہ دیکھا گیا جس سے اس بات کو تقویت ملتی ہے کہ ویکسین کی عدم دستیابی تک مضبوط انسدادی اقدامات اور احتیاطی تدابیر ہی وائرس سے بچنے کی کلید ہے۔ویکسین کی تیاری کے حوالے سے بھی اچھی خبریں سامنے آ رہی ہیں۔

پہلے تو اس دوڑ میں چین ،امریکا ،برطانیہ ہی نظر آ رہے تھے مگر اب روس نے بھی عندیہ دیا ہے کہ وہ اکتوبر میں وسیع پیمانے پر ویکسین کا استعمال شروع کر دے گا جبکہ یہ بھی کہا گیا ہے کہ ملک میں طبی عملے اور اساتذہ کو  ویکسینیشن کے عمل میں ترجیح دی جائے گی۔اس بات سے قطع نظر کہ کون پہلے ویکسین تیار کرتا ہے اصل بات جلد ازجلد ویکسین کی تیاری اور دنیا بھر میں آسان دستیابی کی ہے۔چین پہلے ہی واضح کر چکا ہے کہ ویکسین کی تیاری کے بعد اسے عالمی مصنوعات کا درجہ حاصل ہو گا۔

دوسری جانب عالمی ادارہ صحت نے بھی واضح کر دیا ہے کہ نوول کورونا وائرس کے اثرات سے فوری نکلنا نا ممکن ہے بلکہ آئندہ چند دہائیوں تک انہی منفی اثرات کے زیر اثر  رہنا پڑے گا۔ صحت عامہ کے حوالے سے موجودہ صدی کے بدترین بحران سے چھٹکارہ پانے کے لیے ابھی مزید  انتظار کرنا پڑے گا۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں تاحال اجتماعی سرگرمیوں کی حوصلہ شکنی جاری ہے کیونکہ حالیہ عرصے میں یہ دیکھا گیا ہے کہ جہاں بھی بڑے احتجاجی مظاہروں یا دیگر  عوامی اجتماعات کا انعقاد کیا گیا ہے وہاں نئے کیسوں کی تعداد بھی بڑھی ہے۔

اس کی ایک واضح مثال حالیہ دنوں امریکہ میں مختلف اجتماعی سرگرمیوں کا انعقاد ہے ۔عالمی سطح پر سیاسی سرگرمیوں کی بات کی جائے تو  وہ بھی وبا کے باعث قدرے ماند   ہیں ، یہ الگ بات ہے کہ سوشل میڈیا پر سیاسی حریفوں کے ایک دوسرے پر تابڑتوڑ حملے تواتر سے نظر آتے ہیں۔اسی فہرست میں چین کا خصوصی انتظامی علاقہ ہانگ کانگ بھی  شامل ہے جہاں وبائی صورتحال کے پیش نظر قانون ساز کونسل کے انتخابات ایک سال تک کے لیے ملتوی کر دیے گئے ہیں مگر مغربی حلقوں میں اس اقدام پر بلاجواز تنقید کی جا رہی ہے۔وبا کی سنگینی کے باوجود اگر رواں برس چھ ستمبر کو انتخابات کا انعقاد کروایا جائے تو  اس وسیع عوامی اجتماعی سرگرمی سے  وبا کے تیزی سے پھیلاو کا اندیشہ ہے اور صحت عامہ سے متعلق مسائل جنم لے سکتے ہیں۔

پولنگ اسٹیشنوں کے باہر لوگوں کی طویل قطاروں میں یہ ممکن نہیں کہ سماجی دوری برقرار رکھی جا سکے جبکہ  یہ بھی حقیقت ہے کہ لوگوں کی بڑی تعداد  خوف کے مارے اپنا ووٹ ہی  کاسٹ نہیں کرے گی۔ ہانگ کانگ سے باہر شہریوں کی ایک بڑی تعداد  بھی سخت بارڈر کنٹرول اور قرنطینہ انتظامات کے باعث رائے شماری میں حصہ نہیں لے سکے گی اور نتیجتاً کم ٹرن آوٹ سے انتخابات کی شفافیت پر بھی سوالات اٹھ سکتے ہیں۔ہانگ کانگ خصوصی انتظامی علاقے کی حکومت نے  حقیقت پر مبنی ایک قدم اٹھایا ہے کیونکہ انسانی جانوں کا تحفظ سیاست سے بالاتر ہے۔ہانگ کانگ کو اس وقت وبا کی تیسری لہر کا سامنا ہے اور یومیہ کیسوں کی تعداد  میں بھی مسلسل اضافہ دیکھا گیا ہے۔ایسے میں “ووٹنگ” کا مطلب ہو گا کہ لوگوں کا ایک کثیر اجتماع  جس میں احتیاطی تدابیر پر عمل پیرا رہنا بالکل ناممکن ہو گا۔

دیگر دنیا میں بھی اس حوالے سے کئی ایسے اقدامات اٹھائے گئے ہیں مثلاً برطانوی حکومت نے بھی بلدیاتی اور میئرز کے انتخابات کو  ایک سال کے لیے ملتوی کیا ہے جسے حزب مخالف نے درست فیصلہ قرار دیا اور کہیں کوئی احتجاج یا تنقید نظر نہیں آئی۔ان رویوں کو مثبت اور تعمیری قرار دیا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔ہانگ کانگ میں بھی نہ صرف انتخابات بلکہ حالیہ عرصے میں تمام بڑی عوامی اجتماعی سرگرمیاں منسوخ کی گئی ہیں جن میں کھیلوں کے مقابلے ، ہانگ کانگ کتب میلہ ، جاب ایکسپوز  اور صنعتی اداروں کے اجتماعات وغیرہ قابل زکر ہیں۔ایسی تمام سرگرمیوں کے التوا کو عوامی حمایت حاصل رہی ہے بلکہ مختلف حلقوں کی جانب سے حکومت کی حمایت میں بیانات جاری کرتے ہوئے کہا گیا کہ شہریوں کے جانی تحفظ کو اولین ترجیح دی جائے اور انتخابات کے انعقاد جیسی سرگرمیوں سے فی الحال اجتناب کیا جائے تاوقتیکہ موئثر طور پر وبا پر قابو پا لیا جائے اور شہریوں کے معمولات زندگی بحال ہو سکیں۔

اس صورتحال میں بھی چند چین مخالف قوتوں نے  ہانگ کانگ میں انتخابات ملتوی کرنے کے فیصلے کو سیاسی مفادات کے حصول کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کی ہے۔چند امریکی سیاستدان بھی اسی مخالف ٹولے میں شامل ہیں ، یہ الگ بات ہے کہ خود صدر ٹرمپ بھی حالیہ دنوں ملک میں رواں برس  تین نومبر کو منعقد ہونے والے صدارتی انتخاب  ملتوی کرنے کا بیان دے چکے ہیں اگرچہ اس کی وجہ عالمگیر وبا نہیں بلکہ انتخابی دھاندلی بتائی گئی ہے۔ صدر ٹرمپ کی تجویز کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے اُن کے سیاسی حریفوں حتیٰ کہ ان کے حلیفوں نے بھی تنقید کا نشانہ بنایا اور اصرار کیا کہ صدارتی انتخاب مقررہ وقت پر ہی منعقد کیے جائیں۔یہاں دوہرے رویے اور چین مخالف تعصب بھی جھلکتا ہے کیونکہ برطانیہ میں تو انتخابات کے التوا پر کسی کو کوئی شکایت نہیں مگر  ہانگ کانگ کے معاملے پر ایسے سیاستدانوں کو “جمہوریت” یاد آ  جاتی ہے۔

ہانگ کانگ میں تو  قانون بھی واضح کرتا ہے کہ صحت عامہ کو درپیش کسی بھی خطرے کی صورت میں انتخابات ملتوی کیے جا سکتے ہیں لہذا عوام کی زندگیوں سے بڑھ کر کیا چیز اہم ہو سکتی ہے .جمہوریت کا اصل حسن تو عوام سے ہے اور عوام کا جانی تحفظ  جمہوری نظام کی مضبوطی کی کلید ہے لہذا عالمگیر وبا سے اپنے عوام کو بچاتے ہوئے آگے بڑھنا دانشمندی پر مبنی سیاست اور صحیح معنوں میں جمہوریت ہے۔

جواب چھوڑ دیں