قُل اِنَّ صَلاتِی وَ نُسُکِی.—–لِلّٰہِ رَبِّ العٰالَمِین

عید الفطر گزر جانے کے بعد لوگوں کا رخ عید الضحٰی کی طرف مرکوز ہو جاتا ہے گفتگو، سوالات اور مسائل بھی اسی کے حوالے سے کیے جاتے ہیں مثلاً میں صاحب نصاب تو ہوں یعنی زیور ساڑھے سات تولہ سونے سے زیادہ ہے اور کچھ مال بھی ہے لیکن اس وقت قربانی کرنے کے لیے ہاتھ میں رقم نہیں ہے مجھے قربانی کرنی ہے یا نہیں یا یہ کہ گھر میں جیٹھ، دیور اور سسر سب قربانی کر رہے ہیں ہم بھی خوش حال ہیں لیکن فی الحال قربانی کرنا مشکل ہے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا واقعی قربانی کے لئے بہت سے مال کا ہونا ضروری ہے یا اس کے لیے قلبی تعلق اللہ سے ہونا ضروری ہے.

“قرآن  میں اللہ تعالی فرماتے ہیں ہیں کہہ دیجئے محمد صلی اللہ علیہ وسلم بے شک میری نماز، میری قربانی، میری زندگی اور موت سب اللہ رب العالمین کے لئے ہے(سورۃانعام)

جب ہم اپنی ہر نماز اس عہد کے ساتھ شروع کرتے ہیں توکیا یہ عہد صرف زبانی ہے؟ عید الضحٰی تو صرف مالی قربانی کا وقت ہوتا ہے اور وہ کتنا مشکل ہو جاتا ہے؟ اسی طرح رمضان کے آتے ہی بے شمار سوالات کئے جاتے ہیں کہ کیا مجھے اس مال پر بھی زکوۃ نکالنی ہے جو دو ماہ قبل میرے پچھلے مال میں مل گئی ہے جس کو ایک سال گزر چکا ہے اور کیا وہ زمین جو میں نے صرف پَڑے رہنے کی نیت سے لی تھی اس پر بھی زکوۃ ہوگی اور میں نے جو قرض کسی کو دیا ہے اور اس نے دو سال بعد واپس کرنے کا وعدہ کیا ہے اب ایک سال گزر چکا ہے کیا مجھے اس پر بھی زکوٰۃ نکالنی ہوگی؟

اللہ سے محبت کرنے والے تو مواقع ڈھونڈتے ہیں کہ کس طرح اللہ کی راہ میں خرچ کیا جائے _آئیے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کی طرف چلتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں دس سال گزارے اور ہر عید پر قربانی کی جبکہ آپ کے گھر کے بارے میں سیرۃ النبی شبلی نعمانی میں ملتا ہے کہ گھر میں آئے دن فاقے ہوتے رہتے تھے دو وقت برابر سیر ہو کر کھانا نصیب نہیں ہوتا تھا وہ تو صاحب نصاب نہیں تھے..

فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا سے کسی نے پوچھا میرے پاس چالیس بکریاں ہیں تو زکوۃ کتنی ہو گی؟ آپ نے فرمایا کہ تمہارے لئے ایک اور میرے لئے سب کی سب…

کیا اجر کمانا صرف انہی کا حصہ تھا- اللہ کا وعدہ تو آج بھی موجود ہے اللہ فرماتا ہے” حق یہ ہے کہ جو بھی اپنی ہستی کو اللہ کی اطاعت میں سونپ دے گا اور عملاً نیک روش پر چلے گا اس کے لیے اس کے رب کے پاس اُس کا اجر ہے( سورۃ آلبقرۃ)”

قربانی کی اہمیت،، کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ “قرآن نے بتایا کہ اللہ کو تمہارے اس گوشت اور خون کی ضرورت نہیں اس کے یہاں تو قربانی کے وہ جذبات پہنچتے ہیں جو ذبح کرتے وقت تمھارے دلوں میں موجزن ہوتے ہیں یا ہونے چاہئیے _”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جو شخص وسعت رکھتے ہوئے قربانی نہ کرے وہ ہماری عیدگاہ کے قریب نہ آئے” ایک اور جگہ فرمایا” قربانی کے وقت خون کا جو قطرہ بھی زمین پر گرے گا اس کے بدلے میں اللہ تمہارے پچھلے گناہ بخش دے گا …دنیا کے تمام مسلمان ذی الحج کے دس دنوں میں زیادہ سے زیادہ نیکی کرنے کی کوشش کرتے ہیں کیونکہ ان دنوں کی فضیلت قرآن اور حدیث سے ثابت ہے _ اور دس تاریخ کو سب سے افضل عبادت قربانی ہے- اللہ دنیا کے سب مسلمانوں کو ہر طرف سے یکسو ہو کر اپنا رخ ابراہیم علیہ السلام کے طریقے پر خالصتا اللہ کی طرف کرنے کی توفیق عطا فرمائے..

جواب چھوڑ دیں