کرونا وبا ۔۔۔ تعلیمی دنیا میں نئے امکانات (تیسری قسط)

ہوم اسکولنگ ۔۔۔ایک متبادل نظام تعلیم

یہ 1990 کا ذکر ہے جب میں  دہلی سوداگران کے ایک تعلیمی ادارے میں معلم کی حیثیت  سے خدمات انجام دے رہا تھا ۔ ایک حیران کن مشاہدہ یہ تھا کہ اسکول کے طالب علموں کی مجموعی تعداد میں سے  10 فی صد سے زائد حفا ظ کی تھی۔ ان میں سے اکثر طالب علموں ے اسکول میں  درمیانی جماعتوں جیسے چھٹی یا  ساتویں  میں داخلہ لیا تھا۔ اس سے پہلے  ان کی توجہ حفظ پر تھی اور کچھ وقت گھر پر اسکول کے  بنیادی مضامین کی تعلیم کے لیے وقف تھا  جس میں یا تو والدین  ان کو پڑھاتے تھے یا کوئی  ٹیوٹر ایک گھنٹے کے لیے ان کو تعلیم دیتا تھا۔ یہ بچے اگر کبھی بھی اسکول نہیں گئے ہوتے تو جماعت ششم میں یا اگر انہوں نے پرائمری جماعت تک اسکول میں تعلیم حاصل کی ہوئ ہوتی تو وہ دو یا تین  سال کے  وقفے کے بعد آٹھویں جماعت میں داخلہ لیتے تھے۔ اور ان  کی کارکردگی کسی بھی طور پر دیگر بچوں سے کم نہیں ہوتی تھی۔

اس تجربے کو ہم نے اپنے خاندان میں دہرایا ۔ اورچند بچوں کو پرائمری جماعت کے بعد حفظ میں داخل کرادیا اور گھر پر ان کو اسکول کے نصاب کے مطابق بنیادی مضامین اردو ، انگریزی اور ریاضی کے مضامین میں طاق کر دیا اور حفظ کی تکمیل کے بعد ان کو آٹھویں جماعت میں داخل کروادیا ۔  ان تمام بچوں نے بآسانی مروجہ تعلیم سے مطابقت حاصل کر لی اور پھر پیشہ ورانہ اداروں سے  فارغ التحصیل ہو گئے اور اب عملی زندگی میں انتہائی کامیاب ہیں۔

یہ ایک مربوط تجربہ تھا جس میں  گھریلو  اسکولنگ اور مروجہ اسکولنگ دونوں کو شامل کیا گیا۔ اب جب کہ کرونا نے  روایتی تعلیم کو دھچکا پہنچایا ہے تو تعلیم میں مروجہ تعلیم کے متبادل  کئی تصورات سامنے آئے ہیں اس میں سے ایک ہوم اسکولنگ بھی ہے ۔ آج ہم اسی تصور کے بارے میں گفتگو کریں گے – گھریلو اسکولنگ  کے بارے میں دو تصورات ہیں:

1۔ بچے مکمل طور پر اسکول کی تعلیم گھر پر حاصل کریں۔

2۔ بچے کچھ عرصہ گھر پر اور کچھ وقت اسکول میں گزاریں۔

پہلے نظریہ کے وکیلوں کے مطابق مروجہ اسکول ان کے بچوں کو صرف  کتابیں پڑھارہے ہیں اور ان کو رٹّو توتا بنا رہے ہیں ۔ ان کے لیے تعلیم کا مقصد کسی بھی طرح زیادہ سے زیادہ نمبر حا صل کرنا ہے ۔ اس تصور تعلیم نے بچوں کی  تخلیقی صلاحیت اور آزادیٔ رائے کو سلب کر لیا ۔  مزید یہ کہ زیادہ تر نجی اسکول  ایسی  عمارتوں میں موجود ہیں جو اسکولنگ کے لیے موزوں نہیں ہیں ۔  اور جہاں بچوں کی جسمانی ، معاشرتی اور جذباتی نشوونما جیسےتعلیمی مقاصد  کا حصول ناممکن ہے۔

گزشتہ 30 سالوں  سے ان اسکولوں نے والدین کی توجہ  تعلیم کے ان مقاصد  سے ہٹانے کے لیے ہفتہ وار ، ماہانہ ،  دو  ماہی ،  وسط  میقاتی،اور حتمی امتحانات کے ایک  شیطانی چکر میں ڈالا ہوا ہے ،  والدین کو یقین دلایا جاتا ہے  کہ ہمارا اسکول مسلسل امتحان سے آپ کے بچے کو  بورڈ میں بہتر نمبر دلوا سکتا ہے ۔  اب والدین کے نزدیک اسکول کا تعلیمی معیار وہاں کے بورڈ کے نتایج سے مشروط ہے  ۔مسلسل امتحان نے نہ صرف بچوں کو بلکہ والدین کو بھی ایک نہ ختم ہونے والے ذہنی دباؤ میں مبتلا کر دیا ہے ۔۔ غضب خدا کا نرسری کے بچوں کا بھی امتحان ہوتا ہے جن کو یہ بھی نہیں معلوم کہ پاس اور فیل کے معنی کیا ہیں ۔ ستم یہ کہ یہ  ان نوخیز کلیوں کو   فیل بھی کیا جاتا ہے ۔ ڈھائی سال  کی عمرسے بچے کو ایک مسلسل کرب سے گزارا جاتا ہے۔

امتحان میں نمبرز کی دوڑ نے والدین پر ٹیوشن کا ایک اضافی بوجھ ڈال دیا ہے جتنے مہنگے اسکول میں بچے پڑھ رہے ہیں ان کی پرائیوٹ ٹیوشن کی فیس اتنی ہی زیادہ ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر یہ اسکول بچوں کو کھیلنے کودنے ، اور دیگر ہم نصابی سرگرمیوں  کی سہولت فراہم نہیں کر پارہے تو کم ازکم ان کو درس و  تدریس کی اتنی ذمہ داری تو اٹھانا چاہیے کہ بچے پڑھائے گئے مواد پر اتنا عبور تو حاصل کر لیں کہ ان کو اسکول کے بعد ٹیوشن نہ پڑھنا پڑے۔

  ان اسکولوں نے کمرۂ جماعت میں گنجائش  سے زائد بچوں کو داخلہ دیا ہے اور ایک پڑھائی کا ایک دورانیہ 40 منٹ کا ہوتا ہے تو ہر بچے کے حصہ  میں استاد کی توجہ کا ایک منٹ بھی نہیں آتا۔۔ ان کا وقفہ صرف 20 منٹ  کا ہوتا ہے  جس میں وہ بے چارے اسکول کینٹین سے خریداری میں ہی وقت گزار دیتے ہیں دیگر بچوں سے میل ملاپ اور تفریح کرنے کا موقع ہی نہیں ملتا۔ کمرہ جماعت میں تو بچوں کو ڈسپلن کے نام پر خاموش رہنے کا حکم ہوتا ہے ۔ اور استاد کو صرف کتاب پڑھانے اور اس کے سوال و جواب لکھانے سے زیادہ کچھ اور کرنا نہیں ہوتا ہے۔ اسکول انتظامیہ فخر سے کہتی ہے کہ ہمارے اسکول میں سینکڑوں بچے پڑھ رہے ہیں لیکن مجال ہے کہ کوئی آواز آجائے گویا اسکول نہیں ہوا کوئی قبرستان ہو گیا ۔ افسوس کا مقام تو یہ ہے والدین بھی یہ ہی چاہتے ہیں۔ والدین اور اسکول دونوں مل کر بچوں کو شاہ دولہ کے چوہے بنارہے ہیں۔

 ان اسکولوں میں پڑھنے والے بچے  صبح بستر چھوڑنے سے لے کر رات گئے تک ایک مشین کی طر ح کام کرتے ہیں،اسکول ، پھر ٹیوشن ،اور اس کے بعد قاری صاحب، آخر میں اسکول کا ہوم ورک اس سب نے نے ان کو گھن چکر بنا رکھا ہے۔ نہ ان  کی نیند پوری ہوتی ہے نہ ہی ان کی غذائی ضروریات۔۔ اور جسمانی کھیل کا تصور تو نا پید ہے۔

اسکولوں کی فیس ، درسی کتابوں کی ہوشربا قیمتیں ، وین کے اخراجات، آنے دن تقریبات کے نام پر رقم کے مطالبے نے تعلیمی اخراجات کو آسمان پر پہنچا دیا ہے۔۔ جس کے لیے والدین کو اضافی کام کرنا پڑھ رہا ہے اور ان کے پاس اپنے بچوں کے لیے وقت نہیں ہے جس سے ان کے آپس کے بے تکلف تعلقات بھی متاثر ہو گئے ہیں۔

لہذا جب ہمارے اسکول بچوں کو نہ تو تعلیم  و تربیت فراہم کر رہے ہیں نہ ہی ان  کو  حقیقی زندگی میں مسائل سے سے مقابلہ کر نےکےلیے  درکار ضروری مہارتوں سے لیس کر رہے ہیں تو پھر ہم  ان اسکولوں کو اپنے خون پسینے کی کمائی دے کر ان کے ہاتھوں اپنے بچوں کوکیوں برباد کروائیں؟  اس لیے ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارے بچوں کے لیے ہوم اسکولنگ بہتر ہے۔ جہاں ہم اپنے بچوں کے ساتھ مل کر خود تعلیمی سرگرمیوں کا تعین کر سکتے ہیں جس میں بچے کی اپنی رائے اور دلچسپی اہم ہوگی اور والدین اور بچے خود اپنی تعلیمی و تر بیتی ترقی کے ذمہ دار ہوں گے۔

اگلی قسط میں ہم ہوم اسکولنگ اور روایتی اسکولنگ کے مربوط نظام پر بات کریں گے پھر ہوم اسکولنگ کے طریقوں پر روشنی ڈالیں گے۔

جواب چھوڑ دیں