میرا جینا مرنا اللہ ربّ العالمین کے لئے

ارشادِ ربانی ہے کہ:” کہہ دیجئیے کہ میری نماز، میری قربانی، میرا جینا، میرا مرنا سب اللہ ربّ العالمین کے لئے ہے” پیدائش سے لے کر موت تک انسان اللہ کا محتاج ہے اگر وہ نہ چاہے تو انسان ایک نوالہ بھی اپنے منہ تک نہیں لے جا سکتا ہر ہر لمحہ، انسان کا سارا وجود، کل کائنات اسی ربّ العالمین کے ہاتھ میں ہے۔ تو وہ مالک جس نے اتنا سب کچھ ہمیں عطا فرمایا ہے وہ ہم سے کچھ تقاضا بھی کرتا ہے۔ یہ زندگی اس نے ہمیں یونہی نہیں دے دی کہ جائو کھائو، پیو، عیش کرو اور مر جائو۔ کوئی باز پرس نہیں ہے؟کوئی یوم حساب نہیں ہے؟ایسا بالکل بھی نہیں ہے اس رب نے ہمیں اس دنیا میں ایک مشن دے کر بھیجا ہے۔ اس نے ہمیں بھلے اور برے کی تمیز سکھائی ہے۔ اس رحیم ذات نے ہماری ہدایت کے لئے نبی اور رسول بھیجے ہیں، کتاب ہدایت عطا کی ہے، زندگی گزارنے کا طریقہ اور سلیقہ بتایا ہے۔اس کے راستےپر چلنا آسان نہیں ہے۔ اللّہ کے نبی صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایا “یہ دنیا مومن کے لئے قید خانہ اور کافر کے لئے جنت ہے”دیکھئیے اس دنیا میں جتنے بھی نبی اور پیغمبر آئے سب آزمائے گئے اور ہمارے نبی، محبوب خدا صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم تو سب سے زیادہ آزمائشوں سے گذرے۔  آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم فرماتے ہیں کہ” جتنا میں ستایا گیا ہوں اتنا کوئی نبی نہیں ستایا گیا”اتنی آزمائشیں، اتنی قربانیاں کیوں دی گئیں؟اسی لیے تاکہ اللّہ کا کلمہ بلند ہو اسکی کبریائی بیان کی جائے۔ یہ کوئی آسان کام نہیں ہے اس کے لئے اپنا تن، من، دھن وارنا پڑتا ہے۔ اپنے پیاروں کو قربان کر نا پڑتا ہے۔حضرت ابراھیم علیہ السلام کی زندگی پر نظر ڈالیے کون سی قربانی ہے جو انھوں نے نہیں دی، آگ میں ڈالے گئے، بے وطن ہوئے، اولاد کی آزمائش سے دو چار ہوئے حد تو یہ ہے کہ ننھے سے بچے کو ماں کے ساتھ بے آب و گیا ریگستان میں چھوڑ آئے۔کیوں؟اللّہ کی خاطر! آج اگر ہم سوچیں ہمیں ان میں سے کسی ایک آزمائش میں بھی ڈال دیا جائے تو کیا ہم برداشت کر سکتے ہیں؟مسلمان ہر جگہخوار ہو رہےہیں، امت مسلم ظلم کی ظکی میں پس رہی ہے!اللّہ نےتو فرمایا ہے کہ”اتم وہ بہترین امت ہو جو لوگوں کے لئے نکالی گئی ہے۔ نیکی کا حکم دیتی ہے اور برائی سے روکتی ہے اور ایک اللّہ پر یقین رکھتی ہے “کہاں ہے آج وہ بہترین امت؟ کیا منہ دکھائیں گے روز قیامت ہم اس کے امتی؟اللّہ پاک ہمیں معاف فرما ئے لیکن ہمیں معافی کیسے ملے گی؟وہ کون سی برائی ہے جو ہم میں موجود نہیں، جھوٹ ہم بولتے ہیں، کم ہم تولتے ہیں، اپنے بھائیوں کا بے دریغ خون ہم بہاتے ہیں، چوریاں، ڈاکے، شراب، سود، جوا کون سی بیماری ہے جو ہم میں نہیں۔آج ہمارےپاس وقت ہے، ہم سوچیں، اپنے وقت کی قربانی دیں، اپنی دولت کی قربانی دیں، اپنے بچوں کو صحیح دین سکھائیں، اللّہ پاک کے احکامات سنائیں۔ یہ آج کی سب سے بڑی ضرورت ہے ۔آج ایک دفعہ” دین”پھر اجنبی ہو گیا ہے۔ مجھے تو اللہ کے نبی صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم کی وہ حدیث یاد آ رہی ہے کہ جس میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایا کہ ” ایک وقت ایسا آئےگا کہ دوسری اقوام مسلمانوں پر ایسے ٹوٹیں گی جیسے بھوکا دسترخوان پر ٹوٹتا ہے۔ تو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کی ، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کیا ہم تعداد میں اتنے تھوڑے رہ جائینگے؟آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایا نہیں ، تم تعداد میں بہت زیادہ ہوگے لیکن تمہیں”وہن” کی بیماری لگ جائے گی، صحابہ کرام رض نے پوچھا، یا رسول اللہ یہ ” وہن” کیا ہوتا ہے؟ “آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایا،” دنیا سے محبت اور موت سے نفرت ۔”آج ہمارا یہی حال نہیں ہو گیا ہے کیا ؟ ہم دنیا کے پیچھے مرے جا رہے ہیں۔ آخرت کا کوئی خوف نہیں ہےبس آخر میں یہی دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں صراطِ مستقیم پر چلا دے ، ہمیں دین کی خاطر قربانی دینے والا بنا دے اور ہمیں آخرت کے عذاب سے بچا لےآمین ثمہ آمین یا ربّ العالمین

جواب چھوڑ دیں