وہ اِک سپاہی

کیپٹن کرنل شیر خان یکم جنوری ۱۹۷۰ کو ضلع صوابی کے ایک گاؤں نواں کلی میں پیدا ہوئے۔ ان کے دادا نے بھی کشمیر کی آزادی کی جنگ میں حصہ لیا۔ ان کی یاد میں ہی پوتے کا نام کرنل شیر خان رکھا گیا۔ شیر خان نے خالص دینی ماحول میں پرورش پائی۔ وہ بچپن ہی سے صوم وصلوہ کے پابند اور محب وطن تھے۔ ایک محنتی اور مثالی طالب علم تھے، جماعت ہشتم اور میٹرک کے امتحانات اعلی نمبر سے پاس کیئے۔ بچپن ہی سے دلیر، جنگجو اور مجاہدانہ صلاحیتوں کے مالک تھے۔ انہیں صلاحیتوں کے باعث ۱۹۸۷ میں پاک فضائیہ میں بھرتی ہوئے۔ یہاں مزید تربیت اور فوجی مشقیں ہوئیں۔ یہاں اپنی سپاہیانہ جواہر کے ذریعہ چیف آف اسٹاف ٹرافی حاصل کی۔ بقیہ کورسز میں اعلی کارکردگی کے سبب شاہین بچے کا خطاب ملا۔

بری فوج میں کمیشن کے امتحانات پاس کر کے سیکنڈ لیفٹنٹ بنے اور ان کا پہلا تقرر اوکاڑہ میں ہوا۔ یکم جولائی ۱۹۹۹ کو شیر خان کی کوشش اور خواہش کے مطابق ان کا تبادلہ کشمیر میں ہوا۔ جہاں دشمن سے شدید اور خونی جنگ جاری تھی۔ انہوں نےوہاں جاتے ہی بھارتیوں کو دردناک شکست دی۔ اسی جنگ کے دوران انہوں نے بہت سے مورچے اور چوکیاں قبضے میں لیں۔ یہ جنگ کارگل کے مقام پر ہوئی اس ہی لیئے اس معرکہ کو مرکۂ کارگل کہا جاتا ہے۔ وہاں ایک شب جب پہاڑ کی چوٹی پر بیٹھے ہوئے انہیں یوں محسوس ہوا کہ بھارتی افواج پہاڑوں کی چٹانوں کے پیچھے تازہ کمک کے انتظار میں بیٹھی ہے تاکہ پاکستانی فوج پر حملہ کر سکیں تو کرنل شیر خان نے دشمن کے حملے سے قبل ہی اپنے سپاہیوں کے ساتھ ان پر حملہ کر دیا اور چالیس بھارتی فوجی مار دیئے۔ شدید سردی کے باوجود کیپٹن کرنل نے پانچ چوکیاں قائم کیں جس سے بھارتیوں کے لیئے اپنے علاقے کا دفاع ناقابل تسخیر ہو گیا۔

معرکۂ کارگل سے قبل بھی اپنے اوپر حملے کی جرأت کرنے والے دشمن کو جہنم رسید کیا۔ ان کی بہادری اور جرأت مندی آنے والے سپاہیوں کے لیئے نمونہ ثابت ہوئی۔ معرکہ کے دوران ایک صبح بھارتی کرنل نے شیر خان کی پوسٹ پر مختلف اطراف سے حملہ کیا جس پر کرنل شیر خان نے جوابی حملہ کیا اور دشمن کے ہاتھ لگنے والے حصہ کو دوبارہ اپنے قبضے میں لے لیا۔ مگر کافی زخم بھی آئے اورکیپٹن کرنل شیر خان وہ زخم سہہ نہ سکے اور شہادت کے مرتبے پر فائز ہوئے۔ شہادت کے بعد ان کے گاوں کا نام تبدیل کر کے کرنل شیر خان کلی رکھ دیا گیا۔ کرنل کی دلیری اور بے خوفی نے دژمن کو بھی اعتراف کرنے پر مجبور کر دیا۔ انہوں نے کہا

’’ ہم دشمن فوج ضرور ہیں لیکن حریف کے ایسے بہادر سپاہی کو سلام پیش کرتے ہیں۔ ‘‘ ان کی شخصیت اقبال کے اس شیر کے مصداق تھی ؎

جھپٹنا ،  پلٹنا ،  پلٹ  کر جھپٹنا

لہو گرم رکھنے کا ہے اک بہانہ

جھپٹنا،پلٹنا اور پلٹ کرجھپٹنا واقعی ان کے لہو گرم رکھنے کا بہانہ تھا۔ ان کی شجاعت اور دلیری کے شاندار مظاہرے پر حکومت پاکستان نے انہیں بہادری کا سب سے بڑا اعزاز ’’نشان حیدر‘‘ عطا کیا۔ شیر خان صوبۂ سرحد کے وہ پہلے فوجی افسر ہیں جنہیں یہ اعزاز ملا۔ کیپٹن کرنل شیر خان نے بہادری کی ایک طویل داستان رقم کی۔

جواب چھوڑ دیں