اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّکَ

دین کی تعلیم دینا والدین کا اولین فرض ہے اور بے شک عملی نمونہ و ہ خود ہیں انکا ماحول ہی بچوں کا مستقبل مشاہدہ اور رہنمائی ہے۔ زیان ، بیان ، انداز ، رویہ ، رکھ رکھائو سے لیکر تہوار اور تقریبات سب کی ادائیگی کیلئے گھر اور والدین ہی ماحول مہیا کرتے ہیں۔ پھر بچوں کا پورا حق ہے کہ والدین انہیں دین و دنیا کی بہترین تعلیم دیں ایک صحت مند زندگی اور پر امن پاکیزہ ماحول اور سازگار خوش گوار حالات میں تربیت پانے والے بچے کل کے معزز خود اعتماد اور مہذب شہری ہوتے ہیں ، اس کے لئے عقا ئد کا درست ہونا اور خود والدین کے عقائد کا درست ہونا اور عملی نمونہ ہونا ضروری ہے ۔ ظاہر ہے یہ والدین ہی ہیں جو اپنے بچوں کی بنیادوں کومعاشرے کا سامنا کروانے کیلئے بہت ہی سے مضبوط کرلینے کی بھرپور کوشش میں ہوتے ہیں ۔ اس کیلئے انہیں انکے نصاب اور ماحول پر کڑی نظریں رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے تا کہ اللہ کے دین کی روشنی میں ہی ان کی معلومات کو منظم رکھیں ۔ سائنسی مضامین سے لیکر معاشرتی ضروریات اور رویوں میں مظاہر قدرت کو متوجہ کرتے ہوئے یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کروادیں کہ اللہ تعالیٰ ہی ساری کائنات کو ایک منظم نظام کے تحت چلا رہے ہیں ۔ سائنس میں تو ہم اس نظام کو جاننے اور سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ مظاہر قدرت کی تحقیق کا نام سائنس اور منظم زندگی کا نام ٹیکنالوجی ہے ۔

جب ہر چیز کا وقت ہے صبح سورج نکلنے سے لیکر رات ہونے تک کیسے کام اپنے وقت پر انجام پاتے ہیں ۔ انسان بھی بالکل اسی طرح اپنے کاموں کو عبادات سے لیکر ضروریات زندگی کے حصو ل تک منظم کرے رات کو مکمل آرام کیلئے فارغ کرسکتا ہے ۔ بے ترتیبی اور انتشار یقینا منظم اور فطری زندگی کو نقصان پہنچا تا ہے ۔ تعلیم کے ساتھ ساتھ ذہن سازی کیلئے دیگر ذرا ئع میڈیا ، موبائل اور دیگر اشیاء ہیں جو انہیں والدین کی تربیت سے کہیں آگے لے جاتا ہے کیونکہ ہم خود انہیں یہ مواقع فراہم کرتے ہیں اس کیلئے ہم خود بگاڑ کے ذمہ دار ہوجاتے ہیں یہی وجہ ہے کہ آج ہمارے بچے لگتا ہے ہمار ے نہیں ہیں بلکہ میڈیا کے مارے ہیں کیونکہ نہ انکے خیالات اور نہ اعمال والدین سے ملتے ہیں ۔ ہر جگہ ٹکرا ئو اور تضاد حالات ذہن کو چکرا دیتے ہیں ۔ ظاہر ہے ہم نے ماں باپ کواور بہن بھائیوں کو نماز پڑھتے دیکھا تو ہم خود بخود مائل ہوئے اور الحمد للہ یہ میرے رب کا فضل ہے کہ نماز کی اسکے قبولیت کی فکر رکھتے ہیں تو ہمارے بچے کیوں ایسے نہیں ؟ واقعی وہ ماں باپ کو یا ماں باپ انہیں اتنا وقت نہیں دیتے جتنا وہ میڈیا کو دیتے ہیں ۔ یہاں تک کہ آ ج کل تو میاں بیوی بھی ایک دوسرے کوو وقت دینے کے بجائے دھوکہ زیادہ دیتے ہیں ۔ پکی عمروں میں پہنچ کر بھی آ جکل کا یہ حال ہے ۔ ساری جاب والی یا بے جاب والی مائیں جان چھڑانے ڈیڑھ دو سالہ بچوں کو مو بائل تھما کر خوش ہیں کہ انہیں موبائل ہم سے زیادہ اچھا آتا ہے ۔ عمر کے ساتھ ساتھ کمپیوٹر اور ٹی وی اسے مزید وسعت دیتے ہیں تقویت دیکر کہیں پہنچا دیتے ہیں ۔ گویا گود سے گور تک تعلیم و تربیت کے بجائے کارٹونوں ، موویز اور فلموں ڈراموں نے زندگی کا مقصد بدل کر پورنوفرافک ویب سائٹس نے شخصیت کی تکمیل کروادی تو گویا ہمارے عقائد کہاں گم ہوگئے ؟ تصورات اور تخیلات غالب آگئے !! عجیب الخلقت مخلوقات ، نہ جانے کون کون سے مین اوروومین پھر مار دھاڑ ، لیچڑ اور لوفر پن میڈیائی بے حیائی ، دنیا کی بدترین فحاشی اورقتل و غارت گری ، تباہی اور بربادی لوٹ مار، بیماری پریشانی سب کی سب ہمیں کیا سکھا رہی ہیں ذرا غور سے سوچیں یہ ہمیں موت جیسی حقیقت سے غافل کرکے ہمارے وقت گویا (زندگی کا دورانیہ) کم سے کم تر کرتی جارہی ہے اور یوں ہمیں اللہ پر ایمان سے کوسوں دور کرتی جارہی ہے ۔ یہ ٹیکنالوجی نہیں تباہی ہے ۔ ظاہر ہے اگر ہمارا ایمان نہ رہا تو پھر کیا حیا اور کیسی بے حیائی ؟ کیسا خوف اور کہیں ہماری واپسی کی فکر ؟ کچھ بھی نہیں تو گویا ہوئی نہ زندگی بے مقصد!! روز آلہ موت دیکھتے ہیں موت کی خبریں سنتے ہیں مگر پھر بھی بٹ گئے ہیں۔ دو طرح کے لوگ نظر آرہے ہیں ایک اللہ کو ماننے والے اور ایک اللہ کی ماننے والے ان میں بھی جو رب کو نہیں مانتے ان کو چھوڑ کر جو مانتے ہیں وہ اللہ کو تو مانتے ہیں مگر محض ذاتی عبادات کو ہی مذہب سمجھتے ہیں اور صرف چند ہیں جو اللہ کی مانتے ہیں اور دین اسلام پر سختی سے پابند ہو تے ہیں رہنا چاہتے ہیں اور اس کی تبلیغ میں لگے رہتے ہیں جبکہ دوسری طرح کے لوگ عالمی قوانین کے دل دادہ، عالمی طاقتوں کے آگے سرنگوں اور فخریہ اپنے آپ کو کامیاب سمجھتے ہیں لیکن ان تمام طرح کے لوگوں میں ایک بات مشترک ہے کہ صفت انسانیت کا پر چار سب کرتے ہیں ۔ گویا ان کیلئے انسانیت ہی سب سے اہم چیز ہے ۔ ایک جگہ لکھا تھا کہ Humanity is the mother of all religions یعنی انسانیت سب مذاہب کی ماں ہے ۔ کیا مطلب یعنی اگر آپ اردگرد کے لوگوں کے ساتھ بھلائی کرو گے تو پھر آپ ایک اچھے انسان ہو اور اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ کا عقیدہ کیا ہے ؟ اس نظریئے کو قر آن مجید کی ایک آیت کی روشنی میں سمجھتے ہیں جو ہمارے اس احساس کو تقویت دیگی کہ عقیدہ توحید کے بعد ہی اخلاقیات انسانیت سکھاتے ہیں ۔

کیا تم لوگوں نے حاجیوں کو پانی پلانے اور مسجد حرام کی خدمت کرنے کو ایسے شخص کے کام کے برابر ٹھہرا یا ہے جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان لایا اور اللہ کی راہ میں جہاد کیا ” اللہ کی نظر میں تو دونوں برابر ہیں ۔ اللہ ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا۔ (سورۃ التوبہ)

سب سے اہم بات اور بنیادی بات کہ اللہ اوراسکے آخری رسول ﷺ پر ایمان لانا ہے اور اچھے اعمال ، چاہے وہ بیت اللہ اور اس کے مسلمانوں کی خدمت ہی کیو ں نہ ہو ۔ گویا اچھے اعمال دوسرے نمبر پر ہیں اگر پہلا نمبر نہیں تو پھر دوسرا قابل قبول کیسے ہوگا ؟ ہوگا ہی نہیں لیکن ہمیں تو یہی سکھانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ اصل کام انسانیت ہے جو ہمیں پہلے سے معلوم ہے کہ آپ معلم الاخلاق بنا کر بھیجے گئے ۔ دین سراسر اخلاق ہے اور اخلاق ہی انسانیت ہے ۔ رہی بات اللہ کی اور رسولؐ کی تو اللہ ، خدا ، بھگوان اور وائے گرو ایک ہی ہستی کے مختلف نام ہیں یہ بات بالکل غلط ہے چاہے کوئی بھی چوٹی کا لیڈر کہے ۔

جبکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے “اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے” تو کیا اسلام میں بھگوان ، وائے گرو کا کوئی تصور ہے ؟ اسلام کے علاوہ قیامت کے دن اگر کوئی شخص کوئی اور دین لیکر آیا تو وہ ظاہر ہے عقیدہ توحید کا مخالف ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ کو نہ ماننے والے چاہے جتنے بھی نیک اعمال کریں انسانیت کے کام کریں ادھورے ہیں نامکمل ہیں اور ہم اور آپ خوش قسمت اور خوش نصیب ہیں کہ دین اسلام لئے ہوئے ہیں ۔ اللہ ہمیں نیک ہدایت دے کے تمام بنیادی تقاضوں کو صدق دل سے قبول کرکے عملی طور پر مسلمان ہوں ۔ صرف نام کے نہیں بلکہ عقیدے اور عمل کے ۔ اللہ توفیق دے ۔ آمین کیونکہ عقیدہ تو حید کے ذریعے ہی معلم اخلاق نے اخلاق حمیدہ سمجھائے اسوئہ رسول ؐ عطا کیا اس لئے عقیدہ توحید اور سنت رسولؐ کا مطیع ہونا ہی مسلمان ہونا ہے ۔ الحمد للہ

جواب چھوڑ دیں