تحفہ اور سنت نبوی صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم

ایک دوسرے کو تحائف دینا انسانی تہذیب کا حصہ ہے۔ اسلام میں بھی سنت رسول صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم سے آپس میں تحائف کے تبادلے کی مثالیں ملتی ہیں۔ لیکن تحفہ دینے کے بھی کچھ اصول ہیں۔

پہلا اصول یہ کہ تحفہ اس لیے دیا جاتا ہے کہ انسان کے درمیان محبت بڑھے۔ رسول صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی فرمایا کہ

ایک دوسرے کو ہدیہ بھیجا کرو تو آپس میں محبت پیدا ہوگی اور دلوں کی کدورت جاتی رہے گی”۔

لیکن تحائف کے تبادلے کو ہمارے معاشرے میں لین دین کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ بہت سارے مواقعوں پر ہم رسم دنیا کو نبھانے کے لیے تحائف دیتے ہیں۔ تا کہ ہماری عزت پر کوئی حرف نہ آئے۔ جبکہ لین دین اور رسم دنیا کے پیش نظر تحفہ دینا، سراسر تحفہ کی توہین ہے۔ تحائف اخلاص کی بنیاد پر دیے جاتے ہیں۔ تاکہ دو انسانوں کے درمیان محبت بڑھے نہ کہ انسان کی “میں” کو تقویت دینے کے لیے۔ ایک شخص جو اخلاص اور محبت کی بنیاد پر تحفہ دینا جانتا ہے۔ اگر اسے جواب میں تحفہ نہ بھی ملے تو اس کے اخلاص اور محبت میں کوئی کمی نہیں آ سکتی۔ لہذا اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ تحفہ صرف اور صرف محبت اور اخلاص کے جذبے سے ہی دیا جائے۔ یہی سنت نبوی صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کا تقاضا ہے۔

دوسرا یہ کہ تحفہ کا قیمتی ہونا رقم پر منحصر نہیں ہے۔ وہ تحفہ جو اخلاص اور محبت کی بنیاد پر دیا جاتا ہے۔ اس کی قیمت نہیں لگائی جا سکتی۔ اس لیے کسی کا تحفہ چاہے بہت قیمتی نہ بھی ہو۔ لیکن اس کو خوش دلی سے قبول کیا جائے۔

نبی صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کی اس سلسلے میں حدیث ہے کہ

” اگر مجھے تحفے میں کوئی بکری کا ایک پایا بھی پیش کرے تو میں ضرور قبول کروں گا۔ اگر کوئی دعوت میں ایک پایا ہی کھلائے تو میں ضرور اس کی دعوت میں جاؤں گا”۔

تیسرا یہ کہ تحفہ دینے کا تقاضا ہے کہ ہم دوسرے انسان کو بھی تحفے میں وہی چیز دیں جو ہم اپنے لیے پسند کرتے ہیں۔ کوئی بھی ایسی چیز جو آپ کی خود کی نظر میں بے وقت ہے اس کو دوسرے کے لیے پسند نہ کریں۔ ایک دفعہ ایک رشتے دار نے عیدالفطر سے چند روز پہلے کھجوروں کا استعمال شدہ لفافہ بھیجا۔ جبکہ رمضان المبارک ختم ہونے میں چند ہی روز باقی تھے۔ لہذا کسی کو تحفہ دیتے ہوئے اس کی بے عزتی نہ کیجئے۔ نہ ہی ان کو کم حیثیت سمجھیں۔

رسول صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں:

” اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے۔ کوئی بندہ مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ بھائی کے لیے بھی وہی پسند نہ کرے جو اپنے لیے کرتا ہے”۔

چوتھا یہ کہ تحفہ دیتے ہوئے میانہ روی کا پہلو کبھی ہاتھ سے نہ جانے دیں۔ دوسرے کے حالات اور مالی حیثیت کا خیال رکھتے ہوئے اس پر بوجھ نہ ڈالیں۔ تاکہ وہ آپ کے اخلاص کو بوجھ تصور نہ کرے۔ جو کہ بعد ازاں اس کے لیے مشکل کا باعث بنے۔ تحفہ دینا سنت نبوی صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔ اس کا سب سے بڑا اور بنیادی تقاضا ہے کہ اس کو محبت اور اخلاص کی بنیاد پر دیا جائے۔ اس لیے تحفہ دیتے ہوئے مندرجہ بالا تقاضوں کا خیال رکھا جائے۔

1 تبصرہ

جواب چھوڑ دیں