دعا کو ہاتھ اٹھاؤ

جس رشتےکی بنیاد لا فانی حقیقت پر مبنی ہو وہ خونی رشتوں سے زیادہ خوبصورت اور معتبر ہوتا ہے۔ اس میں خلوص ہی خلوص پروان چڑھتا ہے۔ جوں جوں افراد اُس عظیم مقصد کا دل سے اقرار اور زبان سے اظہار کرتے ہیں وہ بغیر کسی تعارفی اندراج کے اس نسب کا حصہ بن جاتے ہیں۔

اس مضبوط اور دلوں کو جوڑ دینے والی نسبت کو حضرت سلمان بن فارسی رضہ یوں الفاظ کا جامہ پہناتے ہیں کہ جب ان سے پوچھا جاتا کہ آپ کا نسب کیا ہے؟ تو فرماتے اور کیا ہی خوب فرماتے۔۔۔! سلمان بن اسلام!۔اسی تعلق کو اقبال یوں واضح کرتے ہیں:

*بازو تیرا توحید کی قوت سے قوی ہے

اسلام تیرا دیس ہے تو مصطفوی ہے*

یہی دیںں، یہی قومیت ہم مسلمانوں کا قیمتی اثاثہ ہے جسکی برکت سے آج بھی ہم اپنے مسلمان بھائیوں کی مشکلات پر نالاں ہیں۔کشمیر میں ڈٹ کر لڑنے والے عزیز ، یمن میں بھوک سے بلبلاتے بچے ، فلسطینی مسلمانوں کی آہیں، یوغور میں قابض دشمنوں کی چالوں کو سہتے معصوم بھائی بند، ۱۰ سالوں سے مسلمان ہونے کی سزا کاٹنے والی عافیہ صدیقی، بھارتی مسلمانوں کا صبر ، غرض ہمیں سب یاد ہیں۔۔ دعاؤں کے لیے ہاتھ اٹھائیں تو ان کی آزمائشیں اور اس پر ان کے صبر و استقامت کے غیر معمولی واقعات دلوں کو مضطرب اور آنکھوں کو پر نم کردیتے ہیں۔ ہر طرف بڑھتے اسلام دشمن مظالم کی مثال ایسی ہے جیسے اندھیرے کے بیچ یہ امت کھڑی اپنے ایمان کو سہارا بنائے کوششیں کررہی ہے اور چاروں طرف سے اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے جھٹلانے والوں کی دشمنی  بڑے بڑے آگ کے شعلوں کی مانند اس امت کو ایذا دینے اور اسلام سے پھیر دینے کے لیے بڑی مگر کھوکھلی طاقتیں استعمال کر رہے ہوں۔ اس اندھیرے کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے مندرجہ ذیل حدیث ملاحظہ ہو تو روشنی کی نوید دکھائی دیتی ہے۔

حضرت ابو ہریرہ رضہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے (مسلمان قیدیوں کی نجات اور اہلِ کفر کی ہلاکت کے لیے ) متواتر ایک مہینے تک عشاء کی نماز میں قنوت پڑھی۔ ابو ہریرہ رضہ فرماتے ہیں کہ ایک دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا نہیں پڑھی تو میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے نہ پڑھنے کی وجہ پوچھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ مسلمان قیدی رہا ہوکر آگئے ہیں۔ (ابوداؤد)

  • قنوت ِنازلہ کیا ہے؟

قنوت ِنازلہ سے مراد وہ دعا ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دشمن کی ہلاکت خیزیوں سے نجات پانے، دشمن کا زور توڑنے اور اسکے تباہ ہونے کے لیے پڑھی ہے، اور صحابہ کرام رضہ نے بھی اس کا اہتمام کیا۔

حضرت ابوبکر صدیق رضہ کے بارے میں روایت ہے کہ آپ رضہ نے مسلمہ کذاب سے جنگ کے زمانے میں دعائے قنوت پڑھی اور اسی طرح حضرت عمر فاروق رضہ نے بھی پڑھی اور اسی طرح حضرت علی رضہ اور حضرت امیر معاویہ رضہ نے بھی اپنے زمانہ جنگ میں دعائے قنوت پڑھی۔ (غنیتہ المستملی)

  • دعا:

” اللَّهُمَّ اغْفِرْلَنَا ، وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ وَالْمُسْلِمِينَ وَالْمُسْلِمَاتِ ، وَأَلِّفْ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ ، وَأَصْلِحْ ذَاتَ بَيْنِهِمْ ، وَانْصُرْهُمْ عَلَى عَدُوِّكَ وَعَدُوِّهِمْ ، اللَّهُمَّ الْعَنْ كَفَرَةَ الَّذِينَ يَصُدُّونَ عَنْ سَبِيلِكَ ، وَيُكُذِّبُونَ رُسُلَكَ ، وَيُقَاتِلُونَ أَوْلِيَاءَكَ اللَّهُمَّ خَالِفْ بَيْنَ كَلِمَتِهِمَ ، وَزَلْزِلْ أَقْدَامَهُمْ ، وَأَنْزِلْ بِهِمْ بَأْسَكَ الَّذِى لاَ تَرُدُّهُ عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِينَ .

  • ترجمہ:

“اے اللہ! ہماری مغفرت فرما۔ مومن مردوں اور مومن عورتوں اور مسلم مردوں اور مسلم عورتوں کی مغفرت فرما ان کے دلوں کو باہم جوڑ دے، ان کے باہمی تعلقات کو درست فرمادے، اور ہماری مدد فرما اپنے دشمنوں اور اہل اسلام کے دشمنوں کے مقابلے میں ۔ اے اللہ ! تو ان کافروں پر لعنت فرما جو تیری راہ سے روکتے ہیں ، جو تیرے رسولوں کو جھٹلاتے ہیں، جو تیرے دوستوں سے لڑتے ہیں، اے اللہ! تو ان میں باہم اختلاف پیدا فرمادے اور ان کے قدم ڈگمگا دے، اور ان پر اپنا وہ عذاب نازل فرما جس کو تو اپنے مجرموں کے سروں سے نہیں ڈالتا۔“

( حصن حصین ص ۷۴ – اس دعا کے علاوہ بھی دعائیں مروی ہیں، کتبِ اذکار سے معلوم کی جاسکتی ہیں)

  • طریقہ:

وتروں میں، صبح کی نماز میں یا سب ہی  نمازوں میں۔ جیسے حالات ہوں ۔رکوع کے بعد یہ دعا قنوت میں پڑھنی چاہیے.

( حصن حصین ص ۹۱)

 ان حالات میں، جہاں امتِ مسلمہ کو طرح طرح کی کمر توڑ آزمائشوں کا سامنا ہے ہمیں اس دعا کا اہتمام اور اپنا زیادہ سے زیادہ محاسبہ کرتے ہوئے رب تعالیٰ سے خصوصی مدد کی فریاد کرنی چاہیے۔ کیونکہ دعا مومن کا ہتھیار ہے۔

 حضرت عبداللہ بن عمر رضہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” تم میں سے جس کے لیے دعا کا دروازہ کھل گیا، اس کے لیے رحمت کے دروازے کھل گئے؛ اور اللہ کو سوالوں اور دعاؤں میں سب سے زیادہ محبوب یہ ہے کہ بندے اس سے عافیت کی دعا کریں۔ یعنی کوئی دعا اللہ کو اس سے زیادہ محبوب نہیں!” (ترمذی)

جواب چھوڑ دیں