دین کے تقاضے لازمی نبھائیں

گذشتہ بیس,پچیس سالوں میں ضرورت کے تحت ماسیوں سے کام کروانے کا اتفاق ہوا ۔ زمانے کی تیز رفتار تبدیلی نے ماسیوں کے بھی روئیے مزاج چال ڈھال اور ہر طرح کی صورت حال میں عجیب و غریب رنگ دکھائے ۔ آج سے بیس سال پہلے جو ماسی تھی اس کے چار بچے تھے دو لڑکیاں ، دو لڑکے ، لڑکیاں گیارہ بارہ سال کی ہونگی وہ کہتی تھی باجی انہیں قرآن پڑھانا سکھادیں ۔ سارا کام میں کر لیا کرونگی جس دوران وہ کام کرتی ہیں اپنے سے کوشش کرکے انہیں قاعدہ دلوا کر پڑھانے لگے مگر وہ چند دن آئیں اور پھر ادھر ادھر ہو گئیں ان کی والدہ کو کیونکہ قرآن نہ پڑھنے کا افسوس تھا اس لئے وہ اپنی بچیوں کو قرآن پڑھانا چاہتی تھی مگر مجبوریاں حائل تھیں کام ، وقت ان کی بڑھتی عمر نہ جانے کیا حالات ہونگے ؟ بہرحال وہ بچیاں غائب ہو گئیں مطلب کام پر کہیں نہ کہیں لگ گئیں اور پھر ہم مکان تبدیل کر گئے ۔ وہ ماسی یاد آتی تھی دعا بھی کرتی تھی کہ اسکی بچیوں کو قرآن پڑھنے کا موقع مل جائے ۔ پھر یہاں اگر کئی سال تک ماسی نہ رکھی مگر پچھلے سال عرق النساء کے درد نے مجبور کردیا کہ کم از کم جھاڑو پوچھے کا کام کروالوں ۔ ایک ماسی آئی اس کے حالات سنے کہ میاں مستری ہے اسکوٹر پر ناظم آباد چھوڑ جاتا ہے چار چھوٹے بچے ہیں ایک بہن گھر پر ہے اس کے بھی بچہ ہونے والا ہے وہ میرے سارے بچوں کو دیکھ لیتی ہے میں 5گھروں میں کام کرتی ہوں اور پھر گھر خود چلی جاتی ہوں ۔ میاں بچوں کو نہ اسکو ل داخل کرواتا ہے نہ ہی مدرسے بٹھاتا ہے ۔ میرے کہنے پر بتا یا کہ ایک باجی لڑکوں کو مدرسے پڑھانے کا ذمہ لے رہی ہے مگر میرا شوہر نہیں مانتا ۔ دعا کریں وہ مجھے گائوں لے جانا چاہتا ہے میں گائوں نہیں جانا چاہتی اس سے پو چھا تمہیں نماز آتی ہے قر آن پڑھا ہے ؟ بولی نہیں امی کو بھی چند سورتیں یاد ہیں باقی سارا دن امی بھی گھروں میں کام کرتی ہیں جبکہ دو تین بھائی ہیں دو تو ماں کے گھر میں ہی رہتے ہیں ماں کو لفٹ نہیں کرواتے ماں بھی کچھ عرصے میرے پاس کام کرچکی ہیں ۔ بہت صاف ستھری صفائی سے کام کرنے والی محنتی اور شریف عورت تھی پھر وہ بیمار ہوگئی تو اسکی یہ بیٹی آنے لگی تھی لیکن یہ پھر گائوں چلی گئی ۔ پھر میں نے اسکی ماں کو بلوایا تو دوسری بیٹی جو گھر میں بچوں کو سنبھالتی تھی اس نے بتایا کہ ماں کا پتہ نکالا ہے وہ ابھی کام پر نہیں آسکتی بہر حال چند ماہ بعد ماں بیٹی اور ایک سوا مہینے کا پوتا آیا ماں کا م کرتی بیٹی سارا وقت سوا ماہ کے بچے کو سنبھالتی اور اس کی ماںصفائی کرتی صرف تھوڑے سے دودھ کے علاوہ کچھ کھانا پینا پسندنہ کرتی صرف یہ کہتی کہ دعا کرو میرے بیٹے مجھ سے بات کر لیا کریں ۔ رات گیارہ بجے تک ان کی راہ دیکھتی ہوں وہ آتے ہیں منہ پھیر کر اوپر چلے جاتے ہیں ۔ سوا مہینے کے بچے کے باپ کے بارے میں پوچھا کہ اسکا باپ کیا کرتا ہے ؟ تو کہاکہ وہ اس کے چار بچوں کو لیکر گائوں چلا گیا ۔ ہر مرتبہ حاملہ ہو آجاتی تھی۔ بچہ یہاں ہوتا سارا خرچہ ہم اٹھا تے اور پھر وہ چاپلوسی کرکے اسے یعنی اس سوا مہینے والے بچے کی ماں کو لے جاتا اور چند ماہ اپنے پاس رکھتا پھر لڑ لڑا کر حاملہ کرکے میکے پھینک جاتا ہے ۔ اب کہ بھائیوں نے کہہ دیا اس کے بچے اسے دو اور صرف تم یہاں رہو ۔ ورنہ ادھر کبھی نہ آنا ۔ اب اگر میاں کے ساتھ گئی تو پھر واپس کبھی ادھر نہ آنا۔ تو جب سے وہ یہاں ہے اب بچہ سوا مہینے کا ہو گیا ہے تو یہ بھی نوکری کرے گی اس طرح ہم مل جل کر گزار ہ کر لینگے ۔ اب ماں گھر پر رہتی ہے مارچ سے وہ بچے کو دیکھتی ہے آجا نہیں سکتی اور بچے کی اماں 5گھروں میں کام کرکے تین چار بجے گھر جاتی ہے ۔ میں نے اس سے پوچھا نماز نہیں پڑھتی بولی نہیں آتی نہ ہی قرآن پڑھا ۔ بچوں کا پوچھا تو بولی کہ بڑی لڑکی 17سال کی ہے وہ دادی کی بھی خدمت کرتی ہے کھانا پکاتی ہے اور اپنے باقی تین چھوٹے بہن بھائیوں کی رکھوا لی کرتی ہے باپ کبھی گائوں میں کبھی کہیں کبھی کہیں ، انہوں نے بھی کچھ نہیں پڑھا۔ سن کر مجھے دھچکا لگا ۔ یا اللہ یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان اور تین نسلیں نام کی صرف نام کی مسلمان نہ کسی کو فکر ہے نہ دکھ ہے ایسے کتنے ہی ہونگے جو تیزی سے اس اسلامی ملک کی آبادی بڑھا رہے ہونگے اور اسلام سے نا واقف ؟ آئندہ چند عشروں میں ملک کے کتنے لوگ ایسے ہونگے تو اس کا ذمہ دار کون ہوگا ؟ صرف حکومت ابھی سب سے پہلے حکومت: جو تعلیم ،خاص کردینی تعلیم کو یقینی بنانے والی ہونی چاہئے ۔ مدرسوں کا بہترین انتظام ہونا چاہئے جو بدقسمتی سے نہیں ہے نہ آئندہ ارادہ لگتا ہے دنیاوی تعلیم میں دین کی تعلیم کو سر فہرست رکھا جائے تا کہ آئندہ نسلیں مستقبل میں دین اسلام سے واقف ہوں اسلامی نظام سختی سے نافذ ہو اور خود گھر والے اوروالیاں عملی اور شعوری مسلمان ہوں اور اسلام کا یعنی قرآن کا پانچواں حق یعنی تبلیغی عمل کو جاری و ساری رکھے ہو ئے ہو ں۔ کوئی بچہ بھی اسکول یا مدرسہ سے باہر کبھی نہ ہو کہیں بھی نہ ہو پابند کیا جائے ورنہ چند سالوں میں غفلت اور جاہلیت اپنی انتہا کو پہنچ چکے گی سونے پہ سہاگہ کہ میڈیا بے باک ، فحاش بے لگام اور مغربی ناسور زدہ ! جو نہ ہو وہ کم ہے ۔ خدارااللہ کا خوف کریںہر جگہ ہر لیول پر دین کی تعلیم اور ترویج کا انتظام کریں اپنی ماسیوں کو اور مرد حضرات بھی اپنے لوئر اسٹاف کو دین کی طرف لانے میں اپنا مذہبی فریضہ انجام دیں ۔ یہ بھی ہمارا ہی کام ہے ہم کہاں کہاں ڈنڈی مارتے ہیں ہمیں ڈنڈے بھی ملتے ہیں مگر پھر بھی ہم بے حس اور بے ضمیر ہو گئے ہیں اپنی ذمہ داریوں سے اپنی آخرت سے غافل صرف اور صرف دنیاوی عیش و اکرام اور من چاہی کے علاوہ سب کچھ پس پشت ڈالا ہواہے ۔ عالمی وبا بھی ہمیں چونکا نہیں رہی پھر کونسا وقت ہوگا جاگنے اور دنیا کو جگانے کا دین کی روشنی پھیلانے کا ؟ ورنہ یقین جانیں اندھیرے بڑی تیزی سے پھیلتے ہیں کیونکہ وہ اندھیرے ہیں مگر روشنی کی ایک کرن اندھیروں کو مٹانے کیلئے کافی ہوتی ہے اپنے حصے کی کرن ہی جلا ڈالئے وہ کہتے ہیں نا کہ تم اپنے حصے کا بس ایک دیا جلا دو نا زمانہ برسوں تک خود ہی ہوائیں دے گا ۔ ہم نے اسکول میں بچوں کو سمجھایا ہوا تھا کہ یادرکھیں ” اِیچ ون ٹِیچ ون” یعنی ہر بندہ کسی ایک بندے کو لکھنا پڑھنا سکھائے کہ یہ کار عظیم ہے اور اس کا اجر صدیقین اور شہدائوں جیسا ہے تو اور کچھ نہ صحیح اپنے صدقہ جاریہ کیلئے اتنا کام تو ضرور کر جائیں ۔ خود سیکھیں اور دوسروں کو سکھائیں اور خا ص کر خواتین آپ تو معاشرہ بنانے والی تہذیب سجانے والی شخصیات ہیں اللہ نے آپ کے قدموں تلے جنت رکھی ہے۔ تکلیفیں سہتے جائیے دکھ اٹھاتے جائیے ، مشقتیں کرتے جائیے ۔ خوشیاں منتظر ہیں ۔ ثواب بھی تین گنا زیادہ اجر بھی تین گنا زیادہ یونہی تھوڑے قدموں تلے جنت ہے ۔ قربانیوں کے بعد ہی بشارتوں کے درکھلتے ہیں ۔ اختیار آپ کا اپنا ہے ۔ اپنے عظیم عہدے کیلئے عظیم کام زندگی کی آخری سانس تک کرتے جائیے تو اللہ کی مدد آپ کے ساتھ ہے پھر کوئی ناکامی نہیں ۔ انشاءاللہ

جواب چھوڑ دیں