مغربی دنیا میں عورت کے مقام کی  تذلیل

موجودہ دور میں عورت کو جہاں اتنی طاقت ملی ہے وہاں اس کی تذلیل بھی اتنی ہی کی جاتی ہے ۔آخر وہ کون سا معاشرہ تھا جہاں عورت کا استیصال نہ تھا ۔وہ کون سی جگہ تھی جہاں عورت کی عزت محفوظ تھی ۔وہ کون سا ملک تھا جہاں وعورت کو حقوق حاصل تھے وہ کون سا قانون تھا جس نے اسلام سے پہلے عورت کو چادر اور چار دیواری کا تحفظ فراہم کیا تھا۔

یہ سب اسلام کی بہاریں تھیں جس نے عورت کو تقدس فراہم کیا یہ اسلام ہی تھا جس نے سب سے پہلے عورت کے تحفظ کی بات کی ۔اسے عظمت و تکریم سے نوازا۔

آیئے تاریخ کے گوشوں سے نقاب ہٹاتے ہیں۔اندلس میں مسلمانوں کی آمد سے قبل اندلس میں  یہ دستور تھا  کہ امراء سلطنت اور گرنر اپنے بچوں و شاہی آداب سیکھنے  کے لئے شاہی محل میں بھیجا کرتے تھے  ۔ اور یہ رواج عام تھا کہ امراء کی لڑکیاں شاہی محل میں ملکہ کی خدمت گاروں کے ساتھ تعلیم و تربیت پاتی تھیں۔ اندلس کا اہم علاقہ سبتہ تھا جس کا گورنر کاؤنٹ جالین تھا۔کاونٹ جولین نے اپنی بیٹی فلورنڈا کو طلیطلہ میں شاہ راڈرک کے محل میں تعلیم و تربیت کے لیے بھیج دیا ۔ جولین کی لڑکی فلورنڈا جب راڈرک کے محل میں تھی۔ فلورنڈا بہت خوبصورت تھی۔ تو راڈرک اس کے حسن و جمال پر فریفتہ ہو گیا ۔بادشاہت کے غرور اور طاقت کے نشے میں چور ہو کر لڑکی کے دامنِ  عصمت کو تار تار کر دیا ۔ فلورنڈا نے بڑی مشکل سے اس بات کی اطلاع اپنے والد کاؤنٹ جولین  کو بھیجی تو وہ دار الحکومت پہنچا۔

اس نے اپنے جذبات کو بادشاہ پر ظاہر نہ ہونے دیا۔ اور صرف یہ درخواست کی کہ فلورنڈا کی ماں بستر مرگ پر ہے اس لیے اسے واپس جانے کی اجازت دے دی جائے۔راڈرک نے جولین کی بہت عزت افزائی کی اس کو بہت سے اعزازات سے نوازا۔  بربروں کے حملے کے بارے میں اس سے مشورے کیے۔ اس کے کہنے کے مطابق ملک کی منتخب فوج اس کے بھیج دی اوررخصت کرتے وقت اس سے فرمائش کی کہ شکار کے لیے عمدہ باز بھیجے جائیں جو لین نے اس کی بات کے جواب میں کہا” اس مرتبہ میں ایسے باز بھیجوں گا کہ آپ نے اس سے پہلے کبھی نہ دیکھے ہوں گے۔”

کاونٹ جولین نے داد رسی کے لئے اور اپنی بے عزتی کا بدلہ لینے کے لیے  مسلمان والی بن موسیٰ نصیر سے مدد چاہی ۔اور اس طرح  طارق بن زیاد کی شخصیت بھی سامنے آتی ہے جس نے اندلس کو فتح کر لیا اور آج بھی کئی بہنیں  کسی طارق بن زیاد کے انتظار میں ہیں ۔جہاں جس ملک میں گورنر کی بیٹیوں کی عزت و عصمت محفوظ نہ ہو وہاں ایک عام  آدمی کی بیٹی  کے ساتھ کیا سلوک ہوتا ہو گا یہ سمجھنا مشکل نہیں۔ یہ اسلام ہی تھا جس نے  عورت کے تحفظ کا بیڑا اٹھایا  اور پھر عیسائی دو شیزہ اپنی عصمت و ناموس کا بدلہ لینے کے لئے مسلمان حاکموں کو پکارا کرتی تھیں اور ان کی حاکمیت میں اپنی عزتوں کو محفوظ سمجھتی تھیں۔

عورت کا استیصال ہر دور میں ہوا ہے ۔جب دوسری جنگ عظیم میں فرانس اور جرمنی آپس میں بارود کے گولوں سے انسانیت کو تباہ کرنے پر تلے تھے اس وقت بھی پیرس کی حسین دوشیزائیں  ہر رات نیم عریاں ہو کر نازی سپاہوں کے ساتھ ناچتیں اور عشقیہ گانے گا کر ان کا دل لبھاتیں اور پیرس کے حکمرانوں کی ایما پر اپنا آپ ان کے حوالے کر کے قیمتی راز حاصل کر نے کی کوشش کرتیں ۔

عورت کا یہ استیصال کون کر رہا تھا ؟  نازی سپاہی یا اہل پیرس ؟

 (اور اب تو یہ تمام چیزیں عام ہیں کبھی کسی فلم کی شکل میں ،کبھی ڈارمے میں اور کبھی ٹک ٹاک کی شکل میں جہاں مفت میں نادان بہنیں یہ کردار ادا کر رہی ہیں۔اور یہ تمام چیزیں اتنی عام ہو گئی ہیں اور  ہم اس کے اتنے عادی ہو گئے ہیں  کہ ہمیں بالکل تعجب نہیں ہوتا۔)

 جب استنبول میں ہلال و صلیب کا معرکہ ہو رہا تھا اور سلطان محمد  ہر سو کامیابی کے جھنڈے گاڑھ رہا تھا  تو پا پائے  روم کا نمائندہ  کارڈ ینل جولین سلطان  محمد کو شکست دینے کے لیے  نواب لو شواشتی کی بیٹی نواب زادی تھیورڈ کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہا تھا ۔اور یہ نئی بات نہیں   اپنے حریف کو شکست  دینے کے لیے عورت کا استعمال ہر دور میں ہوتا رہا ہے ۔ آج بھی یہود و ہنود نے مسلمانوں کو ثقافتی و تہذیبی سطح  پر شکست دینے کا فیصلہ کیا تو میڈیا کے ذریعے عورت کا بطور ہتھیار استعمال کیا گیا ۔

عورت کے فطری منصب کے استیصال کی تاریخ بہت  پرانی ہے ۔اہل ِ  ہوس نے عورت کو ہمیشہ جنسی تفریح کا ذریعہ سمجھا ہے ۔کبھی مذہب کے مقدس لبادے میں اس کے گو ہر عصمت کو لوٹا گیا ۔ کبھی ثقافت کے نام  پر اس کی آبرو ریزی کی گئی ۔کبھی تہذیب کے نام جنسی تسکین کا سامان فراہم کیا گیا۔

یہ سب کچھ کیوں ہوا؟  یہ سب کس نے کیا ؟

اگر گڈریا بھیڑئیے کے منہ سے بھیڑ کو چھڑا لے تو بھیڑ گڈرئیے  کو نجات دہندہ سمجھتی ہے مگر بھیڑیا گلہ مند ہوتا  ہے کہ گڈریئے نے اس کے حق آزادی پر شب خون مارا ہے ۔ بالکل اسی طرح مندر کے پروہت ،چرچ کے کارڈینیل ، عرب کے عیاش بدو ،سلطنتوں کے خبیث فرمانرواں  سب کو اسلام سے وہی شکوہ ہے جو بھیڑئے کو گڈرئیے سے ہے ۔

اسلام نے 1400 سال قبل عورت کو جو تحفظ فراہم کیا ہے جو حقوق عطا کیے ہیں جن نعمتعوں سے مالا مال کیا دنیا کی کسی مذہب ،کسی معاشرے میں ایسی مثال بھی نہیں ملتی۔

پوری دنیا میں  پچھلی صدی کے آغاز  تک عورت باقاعدہ Legal person نہ تھی یعنی  وہ کسی بھی عدالت میں جا  کر کسی بھی رائج قانون کے تحت اپنا حق طلب نہیں کر سکتی  تھی اور  آج بھی مردو عورت کی مساوات کا نعرہ مغربی معاشرے میں عملا  ایک منافقہ رویئے  کے سوا کچھ نہیں ۔  13 جنوری 2010 تک کے اعداد  و شمار کے مطابق  یورپی کمیشن میں مردوں کی نمائندگی 71% عورتوں کی  29 % یورپین پالیمنٹ میں مرد70%  عورتیں30% یورپی کمیٹی آف رینجرز میں مرد83%  عورتیں 17%اور  یورپ  کی اکنامک اینڈ سوشل کمیٹی میں بھی مرد83% اور عورتیں17%s ہیں۔

ٹومی شیر یڈن اور ایلن میک اپن کتاب سوشلزم اکیسویں صدی میں لکھتے ہیں:

بلا شبہ خواتین کے خلاف تعصب نسل پرستی ،فرقہ واریت اور ہم جنس پرستی  کیخلاف نفرت سے کہیں زیادہ ضرر رساں اور محسوس ہونے والا ہے۔یہ تشدد کا سبب بن سکتا ہے ۔سکاٹ لینڈ میں مرد عورتوں پر اس سے ہیں زیادہ حملے کرتے ہیں جتنے نسل پرستی یا فرقہ واریت  کی بنیاد پر کئے جاتے ہیں۔مردوں کی طرف سے عورتوں پر اکثر تشدد آمیز حملے اس روایتی ضبط کے تحت کئے جاتے ہیں جو مردوں کی بر تری کی بابت 21 صدی میں بھی موجود ہے۔

 عالمی سطح پر سارے کام کا 70 فیصد عورتیں کرتی ہیں ۔لیکن دنیا کی آمدنی میں انہیں صرف 10 فیصد ملتا ہے ۔عورتوں کی تعداد دنیا کی کل آبادی کا 50 فیصد سے زیادہ ہے تاہم اس وقت کل آبادی کا 70 فیصد حصہ جو انتہائی غربت کا شکار  ہے عورتوں پر مشتمل ہے ۔

 حد یہ ہے کہ انتہائی ترقی یافتہ جمہوری ممالک میں بھی جہاں رسمی و قانونی مساوات کو کتا ب قانون میں درج کر لیا گیا ہے وہاں بھی عورتؤن کی حیثیت دوسرے درجے کی سی ہے۔ اسکاٹ لینڈ میں اگرچی اسکول کی بچیاں لڑکوں کے موابلے میں بہتر صلاحیت اور کارکردگی کا مظاہری کرتی ہیں لیکن جب وہ سن بلوغت کو پہنچتی ہیں تو ان کی حیثیت گھٹا کر انہیں دوسرے  درجے کے کاموں میں لگا دیا جاتا ہے اور ان سے بہت کم تنخواہ والے کام کرائے جاتے ہیں۔

یہ تاریخ کے  چند واقعات ہیں  ۔تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے ۔ان سب سے اندازہ ہوتا ہے کہ اسلام نے کس قدر عورت کو بلند و بالا مقام سے نوازا مگر افسوس کہ ہم آج اسی پستی کا شکار ہوتے جا رہے ہیں جس پستی کے واقعات سے تاریخ بھری پڑی ہے۔

جواب چھوڑ دیں