دیں اذانیں کبھی یورپ کے کلیساؤں میں

قسطنطنیہ جسے آج کی دنیا استنبول کے نام سے جانتی ہےسید الانبیاءصلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے اس شہر کا ذکر کئ حوالوں سے ہوا ہے یہ آپ کی پیشن گوئیوں کی حقانیت کاامین ہےیہ شہر 145 میں فتح ہوا لیکن اس عظیم شہر کے بارے میں باقی تمام احادیث اس بڑی جنگ ملحمتہ الکبری سے متعلق ہیں، جس میں یہ شہر ایک بار پھر مسلمانوں کے ہاتھ سے نکل جائے گا اور سیدنا امام مہدی کی فتوحات میں فتح ہونے والا آخری شہر یہی ہوگا یہ قسطنطنیہ جو اس وقت استنبول کہلاتا ہے اس کی ایک عمارت آیاصوفیا گزشتہ دو ہزار سال سے تاریخ کے لاتعداد مناظر دیکھ چکی ہیے۔

آیا صوفیا 481سال تک مسلمانوں کے سجدوں سےآباد رہی لیکن ١٩٣١ء میں اتاترک نے اپنی اسلام دشمنی میں پہلے اس پر تالے لگائے اور پھر ١٩٣۵ء میں اسے ایک عجائب گھر میں تبدیل کر دیا اب دوبارہ اس کے میناروں سے اذاں کی صدا بلند ہونے والی ہے،قسطنطنیہ کا شہر اور یہ عمارت آیاصوفیا مسلمانوں کے عروج و زوال کی کہانی تو سناتی ہے لیکن ساتھ ساتھ عظیم بازننطینی   رومی شہنشاہیت کےزوال کی بھی داستان بیان کرتی ہیں، یہ شہرایشیا ءاور یورپ کے سنگم کے کنارے آباد کیا گیا ،اس جگہ کا انتخاب رومن بادشاہ قسطنطین نے کیا تھا ۔قسطنطین  جب تخت پر بیٹھا توپورے ملک میں خانہ جنگی عروج پر تھی اور بادشاہت بکھر چکی تھی ۔ قسطنطین کی افواج اس خانہ جنگی میں پے در پے شکست کھا رہی تھی کہ میلان کے مقام پر اس میں ایک دم اعلان کیا کہ اس نے رات کو خواب میں آسمان پر عیسائیت کا چمکتا ہوا نشان دیکھا جس کی تعبیر کے طور پر اس نے عیسائیت قبول کر لی۔

اس کے بعد جب وہ مقابل فوج پر میلو ین کے مقام پر حملہ آور ہوا تو فتحیاب ہوگیا۔ اس فتح کے بعد ہی وہ ١٣١٢ عیسوی میں متحدہ روم کے تخت پر جلوہ گر ہو سکا، اس نے آتے ہی عیسائ راہبوں کا قتل عام کا حکم منسوخ کردیا اوربائبل کی تدوین اور مذہب کی بنیاد پر قانون سازی شروع کر دی اس کی والدہ ہیلن نے ایک راہبہ کی حیثیت سے خود کو  عسائیت کے لئے وقف کر دیا لیکن قومی سیاست کی وجہ سے اعلان نہ کر پائیں تو قسطنطین نے اسے  بہت سا سرمایا اور سپاہی دے کر فلسطین بھیج دیا تا کہ وہاں جاکر عیسیٰ علیہ السلام کی جائے پیدائش پر ایک گرجا گھر بنائیں یہ گرجا گھر بیت الحم میں آج بھی تمام عیسائی گروہوں کا مقدس ترین مقام تصور ہوتا ہے۔

قسطنطین نے قدیم روم کے بجائے اپنے باسفورس کے کنارے اس علاقے کو 324عیسوی  میں اپنے دارالحکومت کے طور پر منتخب کیایہی وجہ ہے کہ اس شہر سے حکمرانی کرنے والے رومن بادشاہوں کو بازنطینی حکمران کہا جاتا ہے۔ رومن بادشاہ اب دو حصوں میں بٹ گئی ،ایک بازنطینی جنکا مزہب  آرتھوڈوکس عیسائیت تھی، جب کہ دوسری بادشاہت کا مذہب کہ کیتھولک عیسائیت تھی۔532 عیسوی میں آرتھو چرچ کے مرکز کے طور پر یہ عمارت آیاصوفیا تعمیر کرنے کا حکم دیا جو 537 عیسوی میں مکمل ہوئی۔ آرتھوڈکس عیسائیت کے مرکز کے طور پر یہ عمارت تقریباً 900 سال رہی ۔

خلافت عثمانیہ کے سلطان محمد فاتح نے ١۴۵٣ء میں قسطنطنیہ فتح کیا تو شہر کی عیسائی آبادی اس عمارت میں گھس گئی ان کا ایمان تھا کہ اس کے گنبد سے ایک فرشتہ اس وقت تلوار لے کر آسمان سے اترے گا جب تک دشمن قسطنطنیہ تک پہنچ جائیں گے لیکن سلطان محمد فاتح اس ستون سے گزرتا ہوا اس مسجد کے گنبد والے ہال میں داخل ہوا اور اس نے وہاں کھڑے ہو کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل کرتے ہوئے ایسے ہی فقرے بولے جو آپ نے فتح مکہ کے وقت بولے  تھے کہ” آج تم سے کوئی مواخذہ نہیں تم سب امان میں  ہو”آیاصوفیا میں موجود عیسائی خاندان جو اپنی موت سامنے دیکھ رہے تھے سلطان کے اس اعلان پر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے۔

یہی وجہ ہے کہ قسطنطنیہ  جو کبھی عیسائی تہذیب کا مرکز تھا آج وہاں صرف دو فیصد عیسائی ہیں سلطان محمد فاتح جمعہ کے دن فجر کے وقت آیاصوفیا میں داخل ہوا تھا اس نے کہا کہ یہ ہم نے عیسائیوں سے لڑ کر حاصل کیا ہے اس لیے ہمعبادت گاہوں کے ضامن ہیں ہم جمعہ کی نماز یہاں ادا کریں گے۔ اس دن سے ساڑھے چار سو سال تک یہ جگہ اذانوں سے گونجتی رہی اور سجدوں سےمزین رہی۔ کمال اتاترک نے ١٩٣١ ءمیں صرف اسلام دشمنی میں اسے بند کیا وہ اسے دوبارہ گرجا گھر بنانا چاہتا تھا لیکن وہاں عیسائی آبادی نہ ہونے کے برابر تھی دوسرا مسلمانوں کا دباؤ ،کمال اتاترک نے گرجا گھر بنانے میں ناکامی کے بعد  مسجد میں عجائب گھر بنا دیا ۔آج طیب اردگان کی حکومت ٩۵ سال بعد دوبارہ اس ساڑھے چار سو سالہ تاریخ کو زندہ کرنے جا رہی ہے۔جس کے بارے میں علامہ اقبال نے کہا تھا ؎

دیں اذانیں کبھی یورپ کے کلیساؤں میں

کبھی افریقہ کے تپتے ہوئے صحراؤں میں

جواب چھوڑ دیں