فلسفہ حج اورعشرہ ذوالحج کے اعمال

ہر سال دنیا کے طول وعرض سے لاکھوں فرزندان توحید حج کی سعادت حاصل کرنے کے لیے مکہ مکرمہ میں جمع ہوتے تھے۔اس سال عالمی وبا کی وجہ سے یہ تعداد محدود کردی گئی ہے اور صرف وہی لوگ اس سعادت سے بہرہ اندوز ہوں گے سعودی عرب میں موجود ہیں۔اللہ یعالیٰ اس وبائی صورت حال سے دنیا کو جلد سے جلد نجات عطا فرمائے تاکہ دوبارہ حرمین شریفین کی رونقیں بحال ہوسکیں اور دنیا بھر کے مسلمان، جوجسمانی طور پر دنیا کے جس خطے میں بھی ہوں، دل ان کے حرمین شریفین کی یاد اور وہاں حاضری کے اشتیاق میں تڑپتے رہتے ہیں، حج وعمرہ کی سعادتوں سے مالامال ہوسکیں۔ عمومی طور پر حج کو ایک عبادت سمجھا جاتا ہے،اس کی بطور عبادت حیثیت مسلم ہے،لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس عظیم عبادت کا ایک آفاقی فلسفہ اور کثیر الفوائد اثرات بھی نظر انداز نہیں کیے جاسکتے۔

حج بیت اللہ جہاں بہت سے سیاسی ، تمدنی ، مادی اور روحانی فوائد کا جامع ہے ،وہیں اس کا بہت بڑا فائدہ وحدتِ امت کا عملی اظہا ر ہے۔ اسی مو قع پر اسلامی اتحاد و اتفاق اور اخوت ومساوات کا عملی مظاہرہ ہو تا ہے اور حج اس اخوت ومحبت کو برقرار رکھنے کا بھی ذریعہ ہے۔ کیونکہ دنیا کے گوشے گوشے سے مختلف رنگ ، نسل ، زبان اور علاقے کے لوگ ایک ہی جگہ ، ایک ہی وقت اور ایک جیسا لباس زیب تن کر کے’’ لبیک اللہم لبیک‘‘ کی پر کیف صدائیں بلند کرتے ہو ئے ایک جیسے اعمال اور افعال بجا لاتے ہیں ، جس سے اسلامی اتحاد و اخوت کو تقویت ملتی ہے۔

او ر اس با ت کا اظہار ہو تا کہ مسلمان رنگ وخون کی تفریق سے بالا تر ہیں ، اور بقول شاعر مشرق ؎

بتانِ رنگ وخون کو توڑ کر ملت میں گم ہو جا

نہ تورانی رہے با قی، نہ ایرانی، نہ افغانی

کی عملی تصویر بن کر اپنے رب کے سامنے حا ضر و موجود ہیں۔ گویا حج ہرسال مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کے جغرافیائی ، نسلی ، لسانی اور سیاسی اختلافات کو مٹا کر انہیں ہمہ گیر انسانی وحدت کا روپ عطا کرتا ہے۔اللہ کی شان دیکھئے کہ دولت وثروت کی بنیا د پر انسانیت کی تقسیم کی بیخ کنی کرتے ہو ئے اس مو قع پر امیر و غریب ، شاہ وگدا کو ایک ہی رنگ میں رنگ دیا جاتا ہے۔ جو اس بات کا ؎

بندہ وصاحب و محتاج و غنی ایک ہوئے

تیری سر کا ر میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے

کاعملی اعلان ہو تا ہے۔اسی طر ح حج مسلم امہ کو ایک ہی پلیٹ فارم پر جمع کرنے میں بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔اور یہ انہیں بزبان حال یہ پیغام دیتا ہے ؎

ایک ہو ں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے

نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کا شغر

جس کے اندر یہ بنیا دی فلسفہ پنہاں ہے کہ مسلم امہ غیر مسلم طاغوتی قوتوں کی اقتصادی لو ٹ کھسوٹ ،سیاسی رقابتوں،محلاتی سازوں،باہمی یشہ دوانیوں اور فکری غلامی سے محفوظ رہنے کے لیے ایک لڑی میں پرویا جا ئے تاکہ مسلمان دنیا میں حقیقی امن قائم کرنے کے قابل ہو سکیں۔اس تناظر میں حج کایہ عظیم الشان اجتماع اسلامی بلاک کی تشکیل ،عرب وعجم کے اختلافات کو مٹانے اور انہیں کھوئی ہوئی عظمت ِرفتہ ، اور سرفرازی عطاکرنے کے لیے حیرت انگیز انقلاب پیدا کر سکتا ہے۔

الغرض حج حقیقی معنوں میں تمام ظاہری امتیازات اور گونا گوں فروعی ، لسانی اور علاقائی اختلافات کا قلع قمع کر کے مسلمانوں کے اند ر عاجزی ، سادگی ، خدا پرستی ، خوف الٰہی ، انسان دوستی ، اخوت مساوات اور ملی وحدت کا زبردست جذبہ پیدا کرتا ہے۔ یہی جذبہ آ ج کے دورکا تقاضا بھی ہے ا ور انسانیت اور بالخصوص امت مسلمہ کے دکھوں کا مداوا ہونے کے ساتھ ساتھ دنیا میں امن و سلامتی کا ضامن بھی ہے۔

اب آئیے!ذراعشرہ ذوالحجہ کے اعمال پرایک نظرڈالتے ہیں:

نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے : ایسے کوئی دن نہیں، جن میں کیا گیا عمل اللہ کو ان دنوں میں عمل سے زیادہ محبوب ہو ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم !اللہ کی راہ میں جہاد بھی نہیں ؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : اللہ کی راہ میں جہاد بھی نہیں۔ سوائے اس آدمی کے جو اپنا مال لے کر اور جان ہتھیلی پرر کھ کر میدان جہاد میں جا اترا اور ان دونوں میں سے کوئی ایک چیز بھی واپس نہ لایا ۔ (بخاری شریف)

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس عشرہ میں لوگوں کے مابین تکبیر کی سنت کو زندہ کیا کرتے تھے۔ حضرت عبد اللہ بن عمر اور حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہما عشرہ ذوالحج میں بازار میں نکلتے اور بآواو بلندتکبیریں کہتے اور لوگ بھی ان دونوں کی دیکھا دیکھی تکبیریں کہنا شروع کر دیتے تھے۔(ایضاً)

شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ ؒکہتے ہیں : عشرہ ذوالحج کے دن ماہ رمضان کے آخری عشرہ کے دنوں سے افضل ہیں اور ماہ رمضان کے آخر عشرہ کی راتیں اس عشرہ ذوالحج کی راتوں سے افضل ہیں ۔

قربانی عشرہ ذوالحج کی سب سے بڑی عبادت ہے۔ عید الاضحی کے دن اور اس کے بعد ایام تشریق کے تین دنوں میں قربانی کی جاتی ہے۔یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے جو دین محمدی میں بھی برقرار رکھی گئی ۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم خود بھی قربانی کیا کرتے تھے ااور مسلمانوں کو بھی اس کی ترغیب دیتے تھے۔کوئی نفلی عبادت،خواہ سماجی نقطہ نظر سے کتنی ہی اہمیت کی حامل ہو،قربانی کا نعم البدل نہیں بن سکتی۔ہمیں چاہیے کہ خوش دلی سے قربانی کا فریضہ ادا کریں، اس کا گوشت خود بھی کھائیں؛ دوسروں کو بھی کھلائیں، عزیز واقارب کو بھی دیں اور مستحقین میںصدقہ بھی کریں۔

ہمیں چاہیے کہ اپنی عیدوں کو ہر اس فعل سے پاک رکھیں جو اللہ تعالی کو غضبناک کرنے والا ہے۔ حجاج کے ساتھ ان کی دعاؤںاور تکبیروں میں شامل ہوجائیںجائیں۔یوم عرفہ کا روزہ رکھیں۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے :یوم عرفہ کا روزہ آئندہ و گزشتہ دو سالوں کے گناہوں کو مٹا دیتا ہے ۔(مسلم شریف)

ان ایام کی بھلائیوں کو حاصل کرنے کے لیے درج ذیل اعمال کا اہتمام کریں:

ان دنوں میں بکثرت تکبیریں کہیں۔ اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کریں ، قرآن کریم کی تلاوت کریں ، صدقہ و خیرات کی کثرت کریں ، اپنے والدین اور رشتے داروںسے صلہ رحمی اور نیکی و حسن سلوک کابرتاؤکریں ، لوگوں کی مشکلات حل کرنے میں ان کی مدد کریں۔ ان کی ضروریات کو پورا کریں اور ہر قسم کی عبادت و اطاعت کو سرانجام دیں۔ اس موقع کو غنیمت سمجھیں۔اس زندگی کے دن بہت تھوڑے ہیں اور عمریں بہت چھوٹی چھوٹی ہیں،اس لیے اعمال ِ خیر کا جو موقع بھی ملے اسے اللہ تعالیٰ کی دین سمجھتے ہوئے اس سے فائدہ اٹھائیں۔اللہ ہم سب کو توفیق عطا فرمائے۔آمین!

جواب چھوڑ دیں