آیا صوفیہ… اصل حقائق‎

ترکی میں گزشتہ دنوں ایک عدالتی فیصلے کے بعد استنبول میں واقع عجائب گھر(میوزیم) کو دوبارہ مسجد میں تبدیل کردیا گیا ہے، اس فیصلے کے بعد گویا چہار جانب ایک بحث سی چھڑ گئی ہے کہ آیا یہ فیصلہ صحیح ہے یا پھر غلط ہے، سوشل میڈیا پر بھی ایک طوفان نظر آرہا ہے، مختلف واقعات اور دستاویزات سے اپنی اپنی باتوں کو درست ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہےاس معاملے کی شدت ترکی سے کہیں زیادہ پاکستان میں محسوس کی جارہی ہے

اس معاملے میں اظہار خیال سے پہلے معلومات اور ریکارڈ کی درستگی کرلی جائے تو بہتر ہوگا کہ ترک گورنمنٹ کسی چرچ کومسجد میں تبدیل نہیں کررہی بلکہ ایک میوزیم کومسجد میں تبدیل کیا جا رہا ہے.. 35_1934 میں مصطفیٰ کمال اتاترک کے دور حکومت میں آیا صوفیہ جوکہ 500 سال سے قائم شدہ مسجد تھی.. کو میوزیم میں تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا گیا، اور اگر ہم ترکی کے تاریخی ریکارڈ پر مزید نظر ڈالیں تو پتہ چلتا ہے کہ کمال اتاترک نے اس بھی ایک قدم آگے بڑھ کر استنبول میں واقع سلطان احمد مسجد کو لائبریری میں تبدیل کرنے کا فیصلہ کرلیا تھا جس پر اس وقت عوام الناس کی شدید مخالفت کے باعث عملدرآمد نہ کیا جاسکا…..

مزید برآں ایسی کارروائیاں شروع کردی گئیں تھیں، جنکے زریعے اسلام کو سیاسی اور معاشی دائرے سے باہر نکال کر مکمل طور پر کچل دیا گیا، جن میں اذان کو عربی سے بدل کر ترکی زبان میں کرنا، اور علماء دین کے خلاف سخت ترین کارروائیاں شامل تھیں……

اس پس منظر سے 500 سال پیچھے جائیں، تو جب مشہور عثمانی خلیفہ سلطان محمد فاتحؒ نے اس وقت قسطنطنیہ(موجودہ استنبول) کو فتح کیا تو آیا صوفیہ کو مسجد میں تبدیل کردیا تھا، جو اس وقت کی معلومات کے مطابق ایک چرچ تھا، مگر جب ہم زمینی حقائق پر نظر ڈالتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ اس وقت کی بازنطینی حکومت میں جہاں آیا صوفیہ کی عمارت واقع تھی، تو وہ محض ایک چرچ نہیں تھا بلکہ انکا ایک مضبوط سیاسی اور عسکری گڑھ بھی تھا، اس وقت سیکولر ازم کی ایسی شکل نہیں تھی کہ جیسے اب نظر آتی ہے کہ مذہب اور سیاست کا آپس میں کوئ تعلق نہیں ہے.. عمارت کے ایک حصے میں عیسائی اپنی عبادت کرتے تھے، تو دوسرے حصے میں انکی سیاسی اور عسکری قیادت اپنے حالات و واقعات کے حساب سے فیصلے کیا کرتی تھی، سلطان محمد فاتحؒ کے آیا صوفیہ کو فتح کرنے سے پہلے ایک مشرقی عیسائی ریاست اور مغربی عیسائی ریاست کی آپس کی جنگ میں اسکو آگ لگا کر تباہ و برباد بھی کیا گیا…

اب وہ اہم ترین بات.. جو دراصل موضوع بحث ہے کہ اس وقت کے رائج قانون کے مطابق جو بھی فاتح کسی بھی مقام کو فتح کرتا تووہ اسکی ملکیت تسلیم کی جاتی تھی، اور یہ ایسی حقیقت تھی جو کسی شک و شبہ سے بالاتر تھی، موجودہ زمانے کا لبرل طبقہ یہ غلطی کررہا ہے کہ وہ اس کئ سو سال پرانے معاملے کو موجودہ لبرل قوانین واقدار کے مطابق پرکھنے اور فیصلہ دینے کی کوشش کررہا ہے، کہ جناب اسلام اور مسلمانوں کا کام تو دوسرے مزاہب کی عبادات گاہوں کا تحفظ ہے اور یہاں تو قبضہ کیا جارہا ہے…

دلچسپ امر یہ ہے کہ یہی طبقہ پاکستان میں معصوم بچوں کے ساتھ کی جانیوالی جنسی زیادتی اور تشدد اور نتیجے میں واقع ہوجانیوالی موت کیخلاف عوام الناس کی طرف سے بلند کی جانیوالی سخت سے سخت سزاؤں اور سزائے موت کے مطالبے کی صریحاً مخالفت کرتے ہوئے انکوغیر انسانی سزائیں گردانتا ہے، اور انکو شخصی آزادی کیخلاف قرار دیتا ہے، جبکہ آیا صوفیہ کے معاملے میں اسکو اسلام یاد آرہا ہے!!!

یہ بالکل ایسا ہی ہے کہ جب ایک امریکی سفارتکار ریمنڈ ڈیوس کے ہاتھوں دو افراد کے قتل پر امریکا بہادر کو بھی اسکو بچانے کیلئے اسلامی قانون دیت کا سہارا لینا پڑا….

ان تمام واقعات سے یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ لبرل طبقہ دراصل اللہ رب العالمین کی حاکمیت کو تسلیم ہی نہیں کرتا، محض شخصی آزادی کی بات کرتا ہے اور اس اہم موقع ہر بھی وہ اسلام تاریخ کے حالات و واقعات کو توڑ مروڑ کر پیش کررہا ہے، جبکہ عثمانی سلطنت کے سربراہ سلطان محمد فاتح کا فیصلہ اس وقت کے اسلامی قانون کے مطابق بالکل درست تھا اور موجودہ فیصلہ بھی درست ہے..

اس معاملے میں ہمیں معذرت خواہانہ رویے سے گریز کرتے ہوئے اسے تاریخ اسلامی کے صحیح اور درست مطالعہ و فہم کے تناظر میں دیکھنا اور پرکھنا چاہیے..

جواب چھوڑ دیں