آن لائن کلاسز کا تماشا

 کسے معلوم تھا کہ زندگی کے مدار میں ایک ایسا لمحہ بھی آئے گا جب تمام مصروفیات اور میل جول کو ترک کردینے میں ہی عافیت ہوگی اور لوگ اپنے گھروں میں مقید ہوکر رہ جائیں گے ۔کرونا وائرس نے جہاں سینکڑوں لوگوں کی زندگیوں کو متاثر کیا ہے وہیں تعلیمی سرگرمیاں بھی اس وباء کے نتیجے میں سخت متاثر ہوئی ہیں۔ تعلیمی ادارے پانچ ماہ سے مکمل بند ہیں تعلیمی سرگرمیاں تعطل کا شکار ہیں جبکہ اس وباء کے نتیجے میں ایک مثبت پیش رفت یہ ہوئی کہ اسکولز اور جامعات نے باقاعدہ آن لائن کلاسز کا آغاز کردیا ہے، اور بعض جامعات آن لائن امتحانات کا تجربہ بھی کرچکی ہیں یہ آن لائن کلاسز کتنی موئثر یا غیر موئثر ہیں اور کیا ہم ان سے وہ ثمرات اکھٹے کرنے میں کامیاب رہیں ہیں یا نہیں اس کا جائزہ لینا انتہائی ضروری ہے۔

میں کیونکہ خود اس تجربے سے گزر رہا ہوں لہذا میں ان آن لائن کلاسز کا سخت ناقد ہوں اور اسے غیر موئثر سمجھتا ہوں۔ آن لائن کلاسز پر تنقید کرنے اور اس کے نقائص بیان کرنے کے لئے یہ تحریر کافی نہیں اس کے لئے پھر کسی اور تحریر کا انتخاب جلد کروں گا البتہ میں نے ضروری سمجھا کہ متاثرین “آن لائن کلاسز” کی رائے کو جان کر قارئین کے ساتھ ساتھ حکومت اور جامعات کی انتظامیہ تک بھی پہنچاؤں تاکہ وہ اس ضمن میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔

میں نے کئی طلباء سے بات کی اور آن لائن کلاسز کے حوالے سے ان کی رائے جاننے کی کوشش کی آپ یقین کریں اکثریت نے آن لائن کلاسز کی نہ صرف سخت مخالفت کی بلکہ اس کی مخالفت میں دلائل دیتے ہوئے ان تمام مشکلات کا بھی ذکر کیا جن کا سد باب کرنا نہایت ضروری ہے۔ سب سے بڑا مسئلہ اس صورتحال میں اسمارٹ فون یا 24 گھنٹے انٹرنیٹ کی فراہمی کا ہے اور اگر یہ دونوں چیزیں موجود ہوں بھی تو رہی سہی کسر بجلی کی اعلانیہ اور غیر اعلانیہ طویل لوڈ شیڈنگ پوری کر رہی ہے جس کی وجہ سے طلباء کو کلاسز میں شریک ہونے پر دشواری کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

اس ضمن میں دوسرا بڑا مسئلہ اساتذہ کا ٹیکنالوجی کے استعمال کو بہتر طریقے سے نہ جاننا ہے، بدقسمتی کے ساتھ زیادہ تر اساتذہ ان سافٹ وئیر کو استعمال کرنے کا علم بھی پوری طرح نہیں رکھتے، یہ ہی وجہ ہے کے زیادہ تر کلاسز میں دورانِ تدریس مائیک اور اسکرین کے استعمال میں انہیں دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے، یہ بھی ایک لمحہ فکریہ ہے کہ جب دنیا کے کئی ترقی یافتہ ممالک میں تعلیم کو پورے طریقے سے آن لائن منتقل کردیا گیا ہے وہیں ہمارے اساتذہ اس ٹیکنالوجی کو استعمال کرنے کے طریقے سے اس طرح ہم آہنگ نہیں، جس طرح انہیں ہونا چاہئے تھا۔

بیشتر طلباء کا کہنا تھا کہ جامعات کو چاہئے کے وہ اپنے طور پر ایک ایسی “ایپ” کا استعمال کریں جہاں مائیک کا مکمل اختیار صرف اساتد کے پاس ہو تاکہ وہ اپنی مرضی سے شرکاء کے مائیک کو کھول اور بند کرسکیں، کیونکہ زیادہ تر کلاس کا ماحول مائیک سے آنے والے شور اور تکنیکی خرابی کی وجہ سے ہی خراب ہوتا ہے .نیز یہ وہ چند اہم مسائل ہیں جن کا سد باب کرنا حکومت اور جامعات کی انتظامیہ کے لئےنہایت ضروری ہے تاکہ ہمارے طلباء بھی دورِ جدید کے تعلیمی طریقوں سے بہتر انداز میں فائدہ اٹھاسکیں ورنہ یہ آن لائن کلاسز محض تماشے کے سوا کچھ نہیں کہلائی جائیں گی..!!!

جواب چھوڑ دیں