کووڈ۔19اور صحت عامہ کے مضبوط نظام کی اہمیت

کووڈ۔19  ایک ایسا خطرناک پوشیدہ دشمن ثابت ہو رہا ہے جس نے پوری دنیا کو بلا تفریق اپنے عفریت کا نشانہ بنایا ہے۔ ساڑھے بارہ ملین سے زائد لوگ اب تک وائرس کا نشانہ بن چکے ہیں جبکہ ساڑھے پانچ لاکھ  سے زائد افراد تو اپنی جانوں سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔یہ وائرس اتنا ظالم ہے کہ پوری دنیا میں اپنے پنجے گاڑنے اور وسیع  پیمانے پر ہلاکتوں کا موجب بننے کے باوجود  ابھی تک بس نہیں کر رہا ہے بلکہ ہر گزرتے دن نت نئی شکلیں اپنا کر انسانیت کا منہ چڑھا رہا ہے۔دنیا بھر میں لوگ منتظر ہیں کہ کب ویکسین سامنے آتی ہے اور اس موذی وائرس سے جان چھوٹتی ہے۔

عالمگیر وبائی صورتحال نے آج کے ترقی یافتہ دور کو یہ سبق دیا ہے کہ دنیا کو ایک مشترکہ مضبوط ہیلتھ سسٹم اور  لازمی طبی سامان کی ضرورت جتنی آج ہے ا س سے قبل شائد کبھی نہیں تھی۔طبی امدادی سامان کسی ایک ملک کے لیے نہیں بلکہ پوری انسانیت کے لیے فائدہ مند ثابت ہو رہا ہے۔مستقبل میں انسانی جانوں کے تحفظ کے لیے اس شعبے میں سرمایہ کاری اور خودکفالت لازمی تصور کی جا رہی ہے۔ نوول کورونا وائرس کی تباہ کاریوں نے عالمگیر طبی سازوسامان کی ضرورت اور اہمیت کو وسیع پیمانے پر آشکار کیا ہے۔ہم نے دیکھا کہ وائرس انتہائی متعدی ہے اور اس کے پھیلاو کی رفتار اور پیمانہ بھی کافی وسیع ہے۔ لہذا اس وبا کے خاتمے کے بعد بھی انسانیت کو آئںدہ کسی ایسے  چیلنج سے نمٹنے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔

اس ضمن میں تمام ممالک کو اب اقتصادی عالمگیریت کے ترقیاتی ثمرات کے تبادلے سمیت   دنیا کو درپیش روایتی اور غیر روایتی سیکیورٹی چیلنجز اور مشترکہ بحرانوں سے نمٹنے کے لیے مل کر کام کرنا چاہیے۔دنیا نے یہ دیکھ لیا کہ کسی ایک ملک کی جانب سے وبا پر قابو پانے کا ہر گز  یہ مطلب نہیں کہ وہ مکمل طور پر محفوظ ہو چکا ہے بلکہ دیگر ممالک میں اگر وبائی صورتحال سنگین ہے تو وبا کی دوسری یا تیسری لہر  کا  اندیشہ ہمیشہ رہتا ہے ۔ حالیہ دنوں چین سمیت متعدد ممالک میں ایسے نئے کیسز سامنے آئے جہاں وبا پر موئثر طور پر قابو پا لینے کے بعد اچانک رونما ہونے والی وبائی صورتحال نے صورتحال یکسر بدل دی اور دوبارہ ایک نئے نقطہ آغاز سے اقدامات اٹھانا پڑے ۔

طبی امدادی سامان سے متعلق تعاون کی بات کی جائے تو  وبائی صورتحال میں ایک بڑے ملک کی ذمہ داری نبھاتے ہوئے چین کی جانب سے پاکستان سمیت دنیا کے دیگر ممالک بالخصوص ترقی پزیر اور کم ترقی یافتہ ممالک میں انسداد وبا کا سامان بھیجا گیا ہے مگر  کئی ممالک ایسے بھی ہیں جہاں خودغرضی عروج پر ہے اور  اُن کے نزدیک صرف اپنے شہریوں کا تحفظ سب سے بڑا فریضہ ہے ،باقی عوام غیر متعلقہ یا غیر اہم شمار  کیے جا رہے ہیں۔چین میں اگر آج انسداد وبا میں نمایاں کامیابیاں حاصل کی گئی ہیں تو اس کے پیچھے سب سے اہم حکمت عملی عوام کو فوقیت دینے کی رہی ہے۔ عوام کے تحفظ اور انسانی جانوں کو مقدم رکھا گیا ہے، چاہے اس کی کتنی ہی بھاری معاشی قیمت کیوں نہ ادا کی گئی ہو۔اس کے برعکس امریکہ میں انتہائی سنگین وبائی صورتحال میں بھی معیشت اور سرمایہ اب بھی ٹرمپ انتظامیہ کی توجہ کا نکتہ ہے۔

اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے کہ موجودہ صورتحال میں عالمی سطح پر صحت عامہ کا تحفظ  پوری انسانیت کا ایک مشترکہ چیلنج ہے ، اسی باعث تمام عالم کے لیے مشترکہ مستقبل کے حامل ایک سماج کا قیام ناگزیر ہے۔اگر عالمی ادارہ صحت کے اعداد و شمار کا جائزہ لیا جائے تو  دنیا میں 120 سے زائد  وائرس کی اقسام موجود ہیں۔ اسی باعث عالمی سطح پر ” ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ ” میں مسابقت کو فروغ ملا اور اس شعبے میں بین الاقوامی تعاون کو آگے بڑھایا گیا۔نوول کورونا وائرس ویکسین کی تیاری میں بھی عالمی ماہرین ایک دوسرے کے ساتھ تحقیق اور معلومات کا تبادلہ کر رہے ہیں۔ یہاں بھی چین کافی آگے ہے اور چین پہلے ہی واضح کر چکا ہے کہ وہ دنیا میں وسیع پیمانے پر ویکسین کی فراہمی یقینی بنائے گا اور اسے ایک ” عوامی شے” کا درجہ دیا جائے گا۔ایسے رویے کرہ ارض پر موجود سات ارب سے زائد لوگوں کے تحفظ کے لیے لازم ہیں۔

چینی سائنسدانوں نے سب سے پہلے نوول کورونا وائرس کی شناخت کی اور اس کی جینیاتی ساخت سے متعلق دنیا کو آگاہ کیا ۔ووہان اور صوبہ حوبے میں غیر معمولی کامیابیوں کے نتیجے میں دنیا کو چین سے بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔اس وقت چین میں ویکسین کی تیاری میں بھی نمایاں پیش رفت ہوئی ہے اور چند ویکسین تو کلینکل ٹرائلز کے حتمی مرحلے میں بھی داخل ہو چکی ہیں۔اللہ کرے یہ ویکسینز کامیابی سے یہ مرحلہ بھی عبور کر لیں تاکہ دنیا کے پاس وائرس سے بچنے کی کوئی تدبیر تو نظر آئے۔

عالمی وبا نے صرف چھ ماہ میں دنیا کی طاقتور معیشتوں کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا اور انسانی تاریخ میں اس وائرس کی جو بھاری اقتصادی قیمت انسانیت کو چکانا پڑ رہی ہے ماضی میں ایسی کوئی مثال موجود نہیں ہے۔ اگر صحت کے شعبے کی ہی بات کی جائے تو  کچھ تخمینوں کے مطابق  ناقص طبی نظام  سالانہ جی ڈی پی میں پندرہ فیصد کمی کا سبب ہے ، کمزور صحت کا نظام بلند شرح اموات اور دیگر طبی مسائل کو جنم دیتا ہے جس کے باعث لوگوں کی ایک بڑی تعداد  اقتصادی سماجی سرگرمیوں میں اپنا حصہ ڈالنے سے محروم رہ جاتی ہے۔دنیا کے تقریباً دو سو ممالک اور خطوں میں بنیادی حفظان صحت  کے پروگرام ، سرجری کے دوران محفوظ  طریقہ کار اور بنیادی طبی نگہداشت یہ وہ عوامل ہیں جن کی بدولت عالمی سطح پر چالیس فیصد تک امراض میں کمی ممکن ہے جبکہ ماہرین کے نزدیک کم آمدنی والے ممالک میں یہ شرح سینتالیس فیصد سے زائد ہے۔

صحت کے بنیادی نظام میں بہتری سے بے شمار ثمرات کا حصول  ممکن ہے مثلاً 2040تک بہتر نظام کی بدولت ایک پینسٹھ سالہ شخص خود کو پچپن سالہ شخص کی طرح محسوس کر سکتا ہے ، نوزائیدہ بچوں میں شرح اموات کو پینسٹھ فیصد تک کم کیاجا سکتا ہے جبکہ اسی عرصے تک تیئیس کروڑ سے زائد لوگوں کی زندگیاں بچائی جا سکتی ہیں۔امراض کی روک تھام میں ایک شفاف اور محفوظ ماحول کلیدی اہمیت کا حامل ہے ،باقاعدہ طبی معائنہ اور ویکسین تک ہر شخص کی رسائی اہم ہے ، مثبت جسمانی سرگرمیاں ، روڈ سیفٹی ، فضائی آلودگی کا خاتمہ یہ سب بہتر صحت سے وابستہ امور ہیں۔اسی طرح امراض قلب میں کمی ،بچوں کی قوت مدافعت میں اضافہ اور بالغ افراد کے لیے نزلہ زکام  یا فلو وغیرہ کی ویکسین صحت مند معاشروں کی پہچان ہیں۔

نوول کورونا وائرس کی وبائی صورتحال نے ہمیں خواب غفلت سے بیدار کرتے ہوئے یہ واضح پیغام دیا ہے کہ اگر ہم اقتصادی سماجی اعتبار سے ترقی کرنا چاہتے ہیں تو اس کا راز ایک محفوظ اور صحت مند معاشرے میں پنہاں ہے۔صحت کے شعبے میں سرمایہ کاری میں اضافہ ناگزیر ہے جس کا منافع بھی دیرپا ہے لیکن اگر اب بھی لازمی اقدامات نہ اٹھائے گئے تو دنیا کسی دوسری کووڈ۔19 کی وبا کی مزید متحمل نہیں ہو سکتی ہے۔

جواب چھوڑ دیں