آیا صوفیہ ، سیکولرزم کے خاتمے کا پیغام

تاریخی بابری مسجد کو مندر بنانے کے فیصلے پر دنیا میں کوئی خاطرخواہ بحث نہ ہوئی لیکن آیا صوفیہ کے مسجد آیا صوفیہ بحالی کے اعلان پر پوری دنیا بالخصوص دنیائے عیسائیت میں صف ماتم بچھی ہے تو دوسری طرف عالم اسلام میں اس خبر سے خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے، ہاگیہ صوفیہ فتح ہونے تک مشرقی رومن سلطنت جسے بازنطینی سلطنت کا نہ صرف سب سے بڑا مذہبی مرکز تھا بلکہ بازنطینی سلطنت کے تمام اہم امور اسی عمارت سے چلائے جاتے تھے۔ اگر ارتغرل غازی ڈرامے میں کلیساؤں کے کردار پر غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں کے خلاف جنگوں میں یہ کلیسا جاسوسی، مشاورتی مراکز کے ساتھ ساتھ فوج کے لیے نرسری کا کردار ادا کرتے تھے اور جنگوں کے لیے مالی معاونت کا اہم ذریعہ تھے۔

ہاگیہ صوفیہ یونانی زبان کے الفاظ ہیں جس کے معنی ہیں Holy Wisdom جسے ترکوں نے آیا صوفیہ کا نام دیا اس کے تاریخی پس منظر پہ نگاہ ڈالیں تو اسے 360ء میں قسطنطین نے لکڑی سے بنوایا تھا جو چھٹی صدی میں جل گیا تو قیصر جسٹینین اول نے 532ء میں ہاگیہ صوفیہ کو پختہ اور عالیشان عمارت بنوانا شروع کیا جس کی تکمیل میں چھ سال لگے اور روایت میں ملتا ہے کہ تکمیل کے بعد جب جسٹینین پہلی بار اس میں داخل ہوا تو اس نے تکبرانہ و گستاخانہ جملہ کہا “سلیمانؑ میں تم پر سبقت لے گیا” اس کے بعد تقریباً ہزار برس تک یہ عمارت آرتھوڈوکس عیسائیت کا مرکز بنی رہی اور آخری بار 28 مئی 1453 کو مسیحیوں نے اس میں مذہبی رسومات ادا کیں، اگلے روز سلطان محمد دوم فاتحانہ اس میں داخل ہوا جو اس لمحے سے پہلے تک رومن سلطنت کے تاج و تخت کی علامت کے طور پر دیکھی جاتی تھی۔

اس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ مسلسل آٹھ سو سال تک مسلمان قسطنطنیہ فتح کرنے کے لیے لشکر کشی کرتے رہے لیکن یہ سعادت عثمانی سلطان محمد فاتح کو نصیب ہوئی جس کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تھا کہ “تم ضرور قسطنطنیہ فتح کرلوگے،کیا ہی شاندار وہ امیر ہوگا اور کیا ہی شاندار وہ لشکر ہوگا”۔ قسطنطنیہ چونکہ سلطان کی طرف سے صلح کی پیشکش کے بعد بزور شمشیر فتح ہوا تھا، اس لیے مسلمان ان کلیساؤں کو باقی رکھنے کے پابند نہ تھے اور اس بڑے چرچ کے ساتھ جو توہمات اور باطل عقیدے وابستہ تھے انھیں بھی ختم کرنا تھا۔

اس لیے سلطان محمد فاتح نے اس چرچ کو مسجد میں تبدیل کرنے کا ارادہ کیا، چنانچہ اسے مال کے ذریعہ خریدا گیا، اس میں موجود رسموں اور تصاویر کو مٹا دیا گیا یا چھپا دیا گیا اور محراب قبلہ رخ کر دی گئی، سلطان نے اس کے میناروں میں بھی اضافہ کر دیا تھا۔ اس کے بعد یہ مسجد “جامع آیا صوفیہ” کے نام سے مشہور ہو گئی اور اسے استنبول میں پہلی شاہی مسجد کا درجہ حاصل ہوا جہاں 1517 سے باقاعدہ عثمانی خلیفہ اس کے ممبر سے خطبہ دینے لگے اور سلطنت عثمانیہ کے خاتمہ تک تقریباً پانچ سو سال تک پنجوقتہ نماز ہوتی رہی۔

جنگ عظیم اول کے بعد ترکی کا کنٹرول سنبھال کر مصطفیٰ کمال پاشا نے سلطنت عثمانیہ کے خاتمے کا اعلان کردیا جس پر علامہ اقبال نے کہا کہ “چاک کردی ترک ناداں نے خلافت کی قبا” وہ سیکیولرزم کی آڑ میں اسلام دشمنی میں اس حد تک آگے نکل گیا کہ اسلامی فرائض تک پر پابندی عائد کردی اور 24 نومبر 1934 کو جب اسے “اتا ترک” یعنی ترکوں کا باپ کا خطاب ملا تو اسی دن ترک کابینہ نے مسجد آیا صوفیہ کو میوزیم بنانے کی منظوری دیدی۔ اور تقریباً 86 سال بعد ایک بار پھر آیا صوفیہ میں اذان کی گونج سنائی دینے لگی۔

ترک کونسل آف سٹیٹ کے آیا صوفیہ کی ملکیت سلطان محمد فاتح فاونڈیشن کے حق میں فیصلے کے فوراً بعد طیب اردگان نے خطاب کرتے ہوے آیا صوفیہ کو مسجد کے طور پر بحال کرنے اور 24 جولائی سے باقاعدہ نماز کا اعلان کردیا ہے جس پر اہلیان مغرب کے ساتھ ساتھ سیکیولر حلقوں میں چیخ و پکار مچی ہے جس کی اہم وجہ یہ نہیں کہ آیا صوفیہ کی عمارت کبھی چرچ ہوا کرتی تھی، ایک دو نہیں بیسیوں ایسے چرچ ہیں جن کو امریکہ، برطانیہ و دیگر یورپی ممالک میں مسلمانوں نے خرید کر مسجد بنایا ہوا ہے۔

اصل وجہ یہ ہے کہ جامع آیا صوفیہ اسلامی فتح کی علامت کے طور پر جانی جاتی تھی، صرف اتنا ہی نہیں بلکہ یہ آرتھوڈوکس کرسچنٹی و رومن سلطنت پر ترک عثمانی سلطنت کی مذہبی و فوجی بلکہ ہر لحاظ سے برتری کی علامت ہے اور اس کی بحالی کے اعلان نے ایک بار پھر رومیوں کے زخم ہرے کردئیے ہیں اور مغربی طاقتیں اس موقع سے فائدہ اٹھا کر روس کو کمینزم کی بجائے آرتھوڈوکس کرسچن ریاست کے طور پر بحال کرنا چاہ رہے ہیں یہاں یہ ذکر اہم ہے کہ قسطنطنیہ کی شکست کے بعد بازنطینی اور آرتھوڈوکس مسیحی استنبول سے ماسکو منتقل ہوگئے تھے جہاں ان پر بعد میں کمیونزم کا رنگ چڑھ گیا۔

مغربی میڈیا مسجد آیا صوفیہ کے معاملے کو متنازعہ بنارہا ہے جسے روس نے فیصلے سے پہلے ہی ترکی کا داخلی مسئلہ قرار دیا تھا لیکن مغربی میڈیا کے غیرضروری طور پر اسے اسلامی و مغربی یعنی عیسائیت کی تہذیب کا مسئلہ بناکر پیش کررہا ہے جس پر روسی آرتھوڈوکس پیٹریارک نے اسے تمام کرسچن تہذیب کے لیے خطرہ قرار دیا ہے اور پاپ نے اس فیصلے پر گہرے رنج کا اظہار کیا ہے، اس کے علاوہ تمام دنیائے عیسائیت میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے کیونکہ آیا صوفیہ کو بطور مسجد کی بحالی کھلا پیغام ہے کہ ترکوں نے کمال اتا ترک کے فلسفے کو دفن کرکے ایک بار پھر عثمانی سلطنت کو بحال کردیا ہے، بہت سے پاکستانی دانشور اسے اردگان کی سیاسی پوائنٹ اسکورنگ قرار دے رہے ہیں جو یقیناً ترکی کے زمینی حقائق سے ناواقف ہیں، کمال اتا ترک کے سیکیولر ایجنڈے کے مسلط ہونے کے باوجود ترکوں کے دل سے مذہبی جذبات و عثمانی خلافت سے والہانہ وابستگی کبھی ختم نہ ہوئی ۔

یہی وجہ تھی کہ 1950 میں رپبلکن پارٹی مذہب کے نام پر کامیاب ہوئی اور اس کے بعد 60 کی دہائی میں بھی دائیں بازو کی جماعتوں کو کامیابی ملی، اور اس کے بعد بھی خواہ سلیمان دیمرل ہو یا طیب اردگان ترک عوام نے آیا صوفیہ اور عثمانی سلطنت کے فلسفے کے حق میں ووٹ دیا۔ اور اب آکر ترکوں کی دیرینہ خواہش پوری ہوئی تو اس موقع سے فائدہ اٹھانے کے لیے اسرائیل کے فرمانبردار سپوت لڑکھڑاتا امریکہ و برطانیہ کی جوڑی پس پردہ رہ کر مذہب کارڈ کھیل رہی ہے تاکہ روس سمیت پورے یورپ میں پھر سے طاقت کا محور کلیسا بن جائے تو یہ جوڑی بآسانی اپنے اہداف حاصل کرسکے۔

جواب چھوڑ دیں