ایتھوپیا نے بھی پاکستانی پائیلٹوں کو پرواز سے روک دیا 

اسے کہتے ہیں اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنا…..اب تقریبا ًسب کی سمجھ میں یہ بات آگئی ہے کہ اس معاملہ کو طشت از بام کرنے سے پہلے متعلقہ قوانین کے تحت غیر قانونی بھرتی غیر مصدقہ اسناد رکھنے والے والے پایلٹوں کے خلاف کارروائی ہونا تھی اس کے بعد اس قصہ کو دنیا کے سامنے لایا جانا چاہیے تھا جس کے بعد شاید ادارے کی ساکھ بہتر ہو جاتی لیکن آپ نے اعلان کیا کہ آپ جعلی پایلٹوں کی فوج لیے بیٹھے ہیں جس کے نتیجے میں یورپ اور امریکا نے آپ کی پروازوں کا داخلہ ہی بند کر دیا ۔ جس سے اربوں روپے کا نقصان ہو گیا ہے – درجنوں ملکوں نے آپ کے پایلٹوں کو اڑان بھرنے سے روک دیا- جس کے نتیجے میں آپ کی دنیا مین جگ ہنسائی ہوئی۔ یہ ایسا گھاؤ ہے جو بھرنے میں زمانہ لے گا۔ بد اچھا بدنام برا کے مصداق یہ الزام تمام عمر ہماری ا یر لاین اور اس سے جڑے ہوئے افراد کار کا پیچھا کرے گا۔

وزیر ہوابازی کے اعلان کے بعد یہ نظریہ تشکیل پایا کہ ہمارے پایلٹ نااہل اور ان کے پاس لایسنس نہیں ہیں حالانکہ حقایق اس کے برخالاف ہیں – تمام پایلٹ کے پاس کمرشل پائلٹ کا لایسنس اور اکثیریت کے پاس ایر ٹرانسپورٹ پائلٹ لایسنس ہے جو کہ سول ایوی ایشن اتھارٹی جاری کرتی ہے دونوں قسم کے لایسنس کے لیے بالترتیب 200 اور 1500 گھنٹے کی پروازیں مکمل کرنا ہوتی ہے۔ تعلیمی قابلیت عموما میٹرک ، انگریزی زبان میں ابلاغ کی مہارت اور ذہنی اور جسمانی صحت کی ضابطے کے مطابق درستگی ضروری ہے( امریکی ادارہ ہوابازی بھی اس کو درست سمجھتا ہے)۔۔۔ پھر ان پایلٹوں کا ہر 6 مہینے کے بعد معاینہ اور ریفریشر کورسز کی سرٹیفیکیشن ہوتی ہے اگر اس کے بعد بھی ان کی اہلیت مشکوک ہے تو سول ایوی ایشن کے اہل کاروں کے خلاف کاروائ ہونا چاہیے جنہوں نے ان کو جہاز اڑانے دیے ۔

اس تمام معاملہ کا قضیہ اس امتحانی نظام سے جڑا ہے جس کوچند سال پہلے متعارف کرایا گیا جس میں دو پرچوں کے بجائے آٹھ پرچوں کا تھیوری امتحان لیا گیا جس کا لایسنس کے اجرا میں 5 فی صد سے بھی کم حصہ ہے جوکہ 22000 سوالوں کے ڈیٹابیس سے جڑا ہے جس کو مکمل کرنے میں مہینوں بلکہ سال بھی لگ جاتے تھے، جن پایلٹوں کی تعلیمی استعداد کم تھی ان کے لیے یہ امتحان لوہے کے چنے ثابت ہوا جہاں سے نقل ، سفارش ، رشوت ، خوف و ہراس کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہوا۔ اور کچھ پایلٹ نے بھی اس گنگا میں اپنے ہاتھ دھوئے اور اس کا بھانڈاآخر کار چوراہے میں پھوٹا۔۔ اور گیہوں کے ساتھ گھن بھی پس گیا۔۔ اور جگ ہنسائ مفت میں ملی۔

یعنی یہ معاملہ جہاز اڑانے کی مہارت اور اہلیت اور تعلیمی استد اد سے نہیں بر۔تی کے ضابطوں اور پروفیشنل اخلاقیات کا ہے، اس لیے آپ پایلٹس کو جعلی لایسنس والا نہیں کہ سکتے لیکن ان کی غیر قانونی بھرتی کے خلاف کاروائ کر سکتے تھے، لیکں نا عاقبت اندیشی سے آپ نے ان کے لایسنس کو ہی جعلی قرار دے دیا ۔ اور اس کا خمیازہ اب پوری قوم بھگتے گی اور معیشت کو الٹا گیئر لگ جائے گا۔آخری بات یہ کہ پی آی اے نے یورپی ایرسیفٹی ایجنسی میں پروازوں کی بحالی کی اپیل کی ہے وہاں سے جواب آیا ہے کہ آپ کا اس معاملہ سے کچھ لینا دینا نہیں ہے بلکہ کہا گیا کہ اس اپیل کی پیروی سول ایوی ایشن کو کرنا چاہیے ۔

نااہلی کی حد ہوتی ہے کہ آپ کو یہ ہی نہیں معلوم کہ کس ادارے نے کیا کرنا ہے۔۔۔۔ اب یہ بات سمجھ میں آجاتی ہے کہ آپ کے بناے ہوے مقدمات سے ملزمان کو عدالت کیوں آزاد کر دیتی ہے کیونکہ آپ کے مقدمات کے وکیل اتنے نااہل ہیں کہ کیس کو درست او مضبوط ہی نہیں بنا پاتے اور آپ کے وہاں پر پر خچے اڑتے ہیںتو آپ اپنی پروپیگنڈ مشینوں کے دھانے معزز عدالت کے خلاف کھول دیتے ہیں —- بات لاکھ کی، کرنی خآک کی—– شرم تم کو مگر نہیں آتی۔

یاد رکھیے جتنے پرانے اور خطرناک مرض کی سرجری کرنا ہوتی ہے اتنی ہی احتیاط ، سمجھداری اور اہلیت کی ضرورت ہوتی ہے ۔ اپنے بوسیدہ نظآم کی درستگی کے لیے بھی اسی دانشمندی اور قائدانہ صلاحیت کا کی ضرورت ہے۔

1 تبصرہ

جواب چھوڑ دیں