’’اَکیوریم‘‘

یہ بڑے شہروں میں سے ایک تھا اور پانی محل یہاں کا سب سے بہترین ہوٹل۔ ہر سال یہاں مختلف قسم کے فیسٹول منعقد کئے جاتے تھے۔ اب کی بار اربیلا نے مچھلیوں کی تین روزہ نمائش کا ارادہ کیا تھا۔ اربیلا اس ہوٹل کے مالک کی سیکریٹری تھی اور جلد ہی وہ دونوں شادی کے بندھن میں بندھنے والے تھے۔ نہ جانے کتنے سالوں سے وہ اس ہوٹل کے لئے اکٹھے کام کر رہے تھے۔ مالک نے اس بار کے ایونٹ کے تمام تر اختیارات اربیلا کو دے رکھے تھے۔ اربیلا نے نمبر ملانے شروع کیے۔ اور اب تیسرے دن ملک کے تمام بڑے شہروں سے خوبصورت ترین مچھلیاں منگوا لی گئی تھیں۔

تماش بین دور دور سے مچھلیوں کا رقص دیکھنے یہاں اکٹھے ہوئے تھے۔ سب ہی لاؤنچ میں اکٹھے 10 بجنے کا انتظار کر رہے تھے۔ بڑی بڑی گاڑیوں میں آنے والے چھوٹی چھوٹی مچھلیوں کو دیکھنے کے منتظر تھے۔ یہ عجیب و غریب ایکویریم تھا ایکویریم ڈبہ نما ہوتا ہے لیکن یہ تو ایک کمرہ تھا جس کے دروازے میں بھی مچھلیاں تھیں اور اندر داخل ہوتے ہی چھت، زمین اور دیواروں پر ہر جگہ پانی اور مچھلیاں دکھائی دیتی تھیں۔ نیلی، پیلی، سرخ، سیاہ ہر رنگ کی چھوٹی بڑی مچھلیاں اور مچھلیاں بھی محو رقص۔۔۔۔

اربیلا دروازے کے باہر کھڑی دروازے میں مقید مچھلیوں کو دیکھ رہی تھی، اس بات سے بے خبر کہ آخر سرخ رنگ کو ہی اس نے دروازے میں کیوں رکھا۔۔۔یہ سرخ رنگ کی مچھلیاں چھوٹی چھوٹی جھاڑیوں اور کالے پتھروں سے منہ باہر کرتیں ایک دوسرے سے آگے بڑھتے ہوئے استقبال کے لئے کوشاں تھیں۔ گھڑی کی ٹک ٹک اربیلا کو بے چین کئے جا رہی تھی۔ اندر مچھلیاں خود کو پیش کرنے کے لئے سج دھج رہی تھیں۔ شیشوں میں خود کو دیکھتی، فخر محسوس کرتی مچھلیوں کے دل دھک دھک کر رہے تھے۔ دھک۔۔ دھک۔۔دھک۔۔ دھک۔۔۔۔۔۔ ٹک۔۔ ٹک۔۔ ٹک۔۔ ٹک

دھک دھک اور ٹک ٹک کی آوازیں آپس میں غلطاں ہو رہی تھیں اور پھر دونوں آوازیں ضم ہو گئیں۔۔۔ اب دروازہ کھول دیا گیا تھا۔ اربیلا نے فخریہ انداز میں پہلا قدم اندر رکھا، پھر سب تماش بین اس کے پیچھے اندر داخل ہونے لگے۔ ایک کونے میں سیاہ اور سرمئی رنگ کی مچھلیاں، دوسرے میں نیلی، ایک طرف سبز اور دوسری طرف سفید رنگ کی مچھلیاں دھڑکتے دلوں کے ساتھ محوِ رقصاں تھیں۔ لوگ دلوں میں رنگین خواب لیے مچھلیوں کو رقص کرتے دیکھ کر محظوظ ہو رہے تھے اور ساتھ ہی ساتھ اتنے بڑے ایکویریم اور اس میں مقید مچھلیوں کی تعریفوں کے ساتھ ساتھ اربیلا کو داد دیے بنا نہ رہ پا رہے تھے۔ آج اربیلا بہت خوش تھی اس کے پاؤں زمین پر نہ ٹکتے تھے۔

آج میں اوپر، آسماں نیچے

آج میں آگے، زمانہ ہے پیچھے

گنگناتی شیشے پر وہ یوں چل رہی تھی جیسے کوئی ہنس پانی میں سے گزرنا چاہیے۔۔۔۔ اپنے ٹخنوں سے اوپر اٹھے ٹراوزر کو مزید اٹھاتے ہوئے وہ بل کھاتی گنگناتی پورے ہال میں ٹہل رہی تھی۔۔۔۔آج وہ خود کو کامیابی کی سب سے اونچی سیڑھی پر دیکھ رہی تھی۔ اس کے پاؤں میں بندھے گھنگھرؤں کی آوازیں مچھلیوں کو جلا بخش رہی تھیں۔گھنگھروں کی آوازوں کے ساتھ ساتھ اب ہلکا سا میوزک بھی بج رہا تھا۔ کچھ مچھلیاں ذرا سا دم لینے کو بیٹھی ہی تھیں کہ دوسرا گانا ذرا لاؤڈ میوزک کے ساتھ چلایا گیا۔۔

چھم چھم چھم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ چھم چھم چھم

زلفوں سے باندھ لئے بادل

سینے پے سے اڑنے لگا آنچل

مجھ سے نین ملا کے

موسم ہونے لگے پاگل

اور پھر تماش بین بھی مچھلیوں کے ساتھ رقص کرنے لگے۔ ان کے قدموں کی آوازیں فرش پر نصب ایکویریم میں مقید مچھلیوں کو اپنے پاؤں تلے روندنے لگے۔ لوگوں کے قدموں اور مچھلیوں کے درمیان حائل وہ شیشہ مچھلیوں کو بچا نہ پا رہا تھا۔ کچھ مچھلیوں کو اپنے جسموں پر زخم محسوس ہونے لگے لیکن انہیں ناچنا تھا اور ناچے جانا تھا۔

سب سے ہو کے بے فکر

ناچوں میں آج

چھم چھم چھم۔۔۔۔۔۔۔

تماشبین فجر سے پہلے گھروں کو لوٹ چکے تھے۔مچھلیاں بے سدھ پڑی تھیں۔ ایکویریم کی ڈیوٹی پر مامور ملازمین نماز صبح ادا کر کے ہال میں داخل ہوئے۔ پھڑکتی مچھلیوں کو ایکویریم سے نکالا جانے لگا اس لئے کہ وہ ناکارہ ہو چکی تھیں۔۔

چار مچھلیاں شیشے کے فرش پر تڑپتے تڑپتے جان کی بازی ہار گئیں اور پھر انہیں گند کی ٹوکری کے حوالے کر دیا گیا۔

آج نمائش کا دوسرا دن تھا۔ اور رش پچھلے دن سے بہت زیادہ تھا۔۔۔ہوتا کیوں نہ اتنی اعلیٰ رنگ و نسل کی مچھلیاں ہر جگہ تھوڑی ہی ملتی ہیں۔۔۔ یہ ساری اربیلا کی محنتوں کا صلہ تھا آج مچھلیوں کی نمائش کے ساتھ ساتھ بیلی ڈانس بھی منعقد کیا گیا تھا۔تماشبین رنگ برنگی مچھلیوں کو اچھلتے کودتے اٹھکیلیاں کرتے دیکھ کر محظوظ ہورہے تھے۔ زرد، نیلی، لال اور گلابی رنگ میں چار بھر ے بھرے جسم والی خوبصورت نقوش کی مالک شیشے کے بنے سٹیج پر نمودار ہوئیں۔ گانا شروع کیا جا چکا تھا۔

لیلیٰ میں لیلیٰ، لیلیٰ میں لیلیٰ

ہر کوئی چاہے مجھ سے ملنا اکیلا

ان کے جسم کا ہر ہر عضو گانے کی دھنوں کے ساتھ حرکت کر رہا تھا۔۔۔۔۔

چھت میں سے کچھ مچھلیاں بڑے غرور سے، حقارت بھری نگاہ دیواروں اور فرش میں مقید مچھلیوں پر ڈالتیں۔اور پھر اپنی دھن میں رقص کرنے میں لگ جاتیں۔۔۔۔sucker fish اپنے کنبے کو لے کر فرش کے شیشے کو چاٹتے چاٹتے دیواروں تک جا پہنچتی۔وہ بڑی لگن سے اپنے کام میں جتی نظر آتی۔ وہ کچھ اس انداز سے شیشہ صاف کر رہی ہوتی کہ تماشبین اس کی رنگ برنگی ہلتی دموں کو بیلی ڈانس کا حصہ سمجھنے لگتے۔

شنتا آج بھی پچھلی رات کی طرح سر ایک جھاڑی میں چھپائے بیٹھی تھی۔ شنتا اس ہوٹل کے سویپر کے گھر میں پلی ہوئی مچھلی تھی۔ اس نے بڑی چاہ سے اسے پالا تھا اور اس کا نام بھی اس کے بڑے بیٹے نے ہی رکھا تھا۔ بیٹے کو یونیورسٹی میں ایڈمیشن لینا تھا جس کے لئے اسے پیسوں کی ضرورت تھی مچھلی کی نمائش کا سنتے ہی سویپر کے ذہن میں شنتا آئی۔ ”شنتا تم مجھے بہت پیاری ہو لیکن میں کیا کروں میں مجبور ہوں، بیٹے کو انجینئر بھی تو بنانا ہے۔اس نے ہمیشہ تمہیں پیار کیا ہے آج تمہاری قربانی کا وقت آ پہنچا ہے۔” سویپر نے شنتا کو گھر کے ایکویریم سے نکال کر اربیلا کے سامنے پیش کیا۔ اس کی خوبصورتی سے متاثر ہو کر اربیلا نے بھی بھاری رقم ادا کر کے اسے خرید لیا اور ملک سے منگوائی گئی بڑی بڑی مچھلیوں کے درمیان اسے بھیاس بڑے ایکویریم میں جگہ مل گئی۔

شنتا کو اس طرح چھپے دیکھ کر اس کی نسل کی بڑی مچھلی نے پاس سے گزرتے ہوئے حکم دینے والے انداز میں اسے بھی شیشے کے قریب جانے کو کہا۔۔وہ دھک سے رہ گئی۔” اس کا مطلب ہے میں ان کی نظروں سے اوجھل نہ رہ پاؤں گئی۔ خدایا یہ کیسا امتحان ہے؟؟؟

مجھے بھیڑ سے ہمیشہ ڈر لگتا ھے، تو جانتا ہے نا؟؟ پھر مجھے یہاں اس نمائش کا حصہ بنانے کی وجہ؟؟؟ تجھے نہیں لگتا تو نے ہمیں کم تر اور انہیں اشرف المخلوقات بنا کر بہت بڑی غلطی کی ہے؟؟؟لیکن تیرے پاس کہاں اتنا وقت کہ تو یہ بات بھی سوچے؟؟؟میرا دل نہیں کرتا کہ میں سجدہ کروں۔۔۔ گھن آتی ہے مجھے اشرف المخلوقات سے۔۔۔۔۔ اور پھر خود کو اس ایکویریم کا حصہ بننے پر اس سے بھی زیادہ گھن آتی ہے۔ کروں بھی تو کیسے؟؟؟ تو بتا اس گھر میں کوئی سجدہ کر سکتا ہے؟؟؟”

اذان صبح ہونے لگی، لوگ گھروں کو لوٹنے لگے۔ شنتا بے چینی سے رکھوالوں کی آمد کا انتظار کرنے لگی۔ ڈیوٹی پر مامور دونوں اشخاص ہال میں داخل ہوئے۔ زخمی مچھلیوں کو ایکویریم سے نکالا جانے لگا۔ کچھ دیر کے لئے ایکویریم میں آہ و فغاں کا سماں بندھ گیا۔ دوستیں ایک دوسرے سے بچھرنے پر افسردہ تھیں، لیکن وہ محض کچھ دیر کا تھا بچھڑ جانے کا غم دم توڑنے لگا صفائی تو سبھی کو پسند ہوتی ہے ناں؟؟؟ اور پھر ایکویریم صاف ہو گیا۔مچھلیاں فرش پر پڑی کچھ دیر تڑپتی رہیں اور پھر ان کی سانسیں بند ہو گئیں۔ آج 7 مچھلیاں کوڑے کی ٹوکری کی نذر ہوئیں تھیں۔

آج نمائش کا آخری دن تھا۔ اربیلا اس دن کو کامیاب ترین بنا دینا چاہتی تھی۔ آج ایسا کیا کیا جائے۔۔۔۔اس کے ذہن کی بتی جلنے لگی۔۔۔۔ فردہ۔۔۔۔۔۔ہاااااااااااااااااااااااں فردہ۔۔۔۔

فردہ ایک چھوٹے سے بار کلب کی رقاصہ تھی۔ اربیلا کے ذہن میں اس کی صورت گھومنے لگی۔ اس کی سیاہ لمبی زلفیں شانوں پر بکھری ہوئی۔۔۔جھیل جیسی گہری آنکھیں، وہ چنچل، ذہین اور حاضر جواب رقاصہ تھی۔ اتنی دلکش حسینہ کب کام آئے گی……    ہم م م م م م م م  تو آج اس سے کیا گیا وعدہ وفا کرنے کا وقت بھی آ گیا۔ ” میں تمہیں بہت بڑے پیمانے پر کام کروانے کے لیے لے جانا چاہتی ہوں ”۔۔۔ ”ہم حاضر ہیں۔” فردہ نے شوخ انداز میں جواب دیا۔

”گڈ۔ اب ہمیں کچھ معاملات طے کر لینے ہونگے۔۔”

” کیسے معاملات؟” وہ مسکرائی۔

” پیسے کے۔۔۔۔۔اور۔۔۔تمہیں لانے لے جانے کے انتظامات کے۔۔۔۔۔” ٹیبل پر پڑی ڈائری پر جھکتے ہوئے اربیلا نے سوال کیا ” اور تمہارا اصل نام؟؟؟؟”

فردہ مسکرانے لگی ”ہماری اصل اور نقل کوئی نہیں ہوتی۔۔۔۔۔ ہم وہی ہیں جو آپ کے سامنے ہیں۔۔۔۔۔”

”مطلب تم نے اپنا اصل نام ہی بار میں لکھوایا ہوا ہے؟؟تمہارے گھر والے اعتراض نہیں کرتے؟؟”

”میڈم گھر والوں کو اس سے کیا مطلب؟؟؟ وہ آم کھاتے ہیں پیڑ نہیں گنتے۔۔۔۔۔۔۔پیڑ گننے بیٹھیں تو آم سے رہ جائیں گے۔۔۔۔۔ اس لیے وہ تمام تر توجہ آم پر ہی مرکوز رکھنا چاہتے ہیں.”

10 بج چکے تھے۔ تماش بینوں کا رش دیدنی تھا۔ہال کچھا کھچھ لوگوں سے بھرا ہوا تھا۔۔۔ فرد ہ ا سٹیج کی زینت بن چکی تھی۔ گانے پے گانا بجنے لگا۔۔۔ فردہ کے چہرے پر چار گھنٹے کے رقص کے بعد بھی تھکن کے کوئی آثار نمایاں نہ تھے۔ تماش بین تھے کہ واری جاتے تھے۔ وہ یکے بعد دیگرے اٹھ اٹھ کر داد دیتے۔

” شنتا باہر نکلو۔۔۔۔ آج تو تمہیں نکلنا ہی ہوگا۔ ” ساتھ سے گزرتے ہوئے ایک بڑی مچھلی نے آواز لگائی۔ ”اتنی بھاری قیمت ادا کر کے تمہیں صرف چھپنے کے لئے نہیں لایا گیا۔ تم کسی کی خرید ہو، ہڈ حرام کہیں کی۔۔۔ ” ہڈ حرامی کا طعنہ اس کے سینے کو اندر تک چیرتا چلا گیا۔۔ ” مجھے کچھ تو کرنا ہو گا۔ بغیر کام کیے کھانا حرام ہی تو ہے۔۔۔اور حرام گناہ ہے۔۔۔ مجھے اسے حلال کرنا ہو گا۔ ” اس نے جھاڑیوں سے منہ نکالا۔ نہ چاہتے ہوئے بھی وہ شیشے تک پہنچی پھر اسے اپنا آپ شیشے سے ٹکراتا ہوا زمین تک پہنچتا محسوس ہوا۔ اس کا جسم خون میں لت پت تھا۔ خون فرش میں مقیط ایکویریم پر پھیلتا جا رہا تھا۔۔ پانی محل کی عمارت کی طرح ایکوریم میں پڑے پانی کا رنگ بھی گہرا لال ہونے لگا۔۔ لیکن تماش بین فردہ کا رقص دیکھنے میں مشغول تھے انہیں پانی کا بدلتا رنگ نظر نہ آیا تھا۔۔ لوگوں سے کیا گلا انہیں تو ہوٹل کی عمارت کا رنگ بھی کبھی نظر نہ آیا تھا۔ اربیلا کا ہونے والا شوہر اپنی سیٹ سے فردہ کو داد دینے کے لئے اٹھا۔۔اس کے ہاتھ اربیلا کے ہاتھوں سے چھوٹ کر فردہ کی کمر تک جا پہنچے۔ وہ اس کے ساتھ رقص کرنے لگا۔۔۔ جیسے رقاصہ ایک سے دو ہو جائیں اور پھر دو سے ایک۔ تماش بینوں کی داد میں اضافہ ہوتا گیا۔ اچانک اربیلا کو اپنے پاؤں تلے سے زمین کھسکتی نظر آئی۔۔۔۔۔” میں۔۔۔۔۔۔ میں۔۔۔۔۔ میں کہاں ہوں؟؟؟؟”

آج نمائش کی آخری رات تھی۔ لوگ گھروں کو جا چکے تھے۔۔ اپنے مخصوص انداز میں وہ دونوں رکھوالے ہال میں داخل ہوئے۔ اربیلا پہلے سے فرش پر پڑی تڑپ رہی تھی۔۔ وہ دونوں اس پر سے پھلانگتے ہوئے آگے بڑھے۔ انہیں ایکویریم صاف کرنا تھا۔۔ ایکویریم میں سے زخمی مچھلیوں کو باہر نکالنے کا سلسلہ جاری تھا۔۔۔ کچھ مچھلیاں اس کے جسم سے ٹکراتی فرش پر جا گریں اور کچھ اس کے ارد گرد گرتی گئیں۔۔۔ وہ سب بھی اربیلا کے ساتھ ایک دوسرے کو دیکھ کر تڑپ رہی تھیں پھر اچانک وہ سب ہوا میں ناچنے لگیں اربیلا بھی انکا ساتھ دے رہی تھی ناچتے ناچتے وہ ہوا میں معلق ہو گئیں۔۔۔۔۔۔.

جواب چھوڑ دیں